انفرادیت

آ رہا ہے اک ستارہ آسماں سے ٹوٹ کر
دوڑتا اپنے جنوں کی راہ پر دیوانہ وار
اپنے دل کے شعلۂ سوزاں میں خود جلتا ہوا
منتشر کرتا ہوا دامان ظلمت میں شرار
اپنی تنہائی پہ خود ہی ناز فرماتا ہوا
شوق پر کرتا ہوا آئین فطرت کو نثار
کس قدر بے باک کتنا تیز کتنا گرم رو
جس سے سیاروں کی آسودہ خرامی شرمسار
موجۂ دریا اشاروں سے بلاتی ہے قریب
اپنی سنگین گود پھیلائے ہوئے ہے کوہسار
ہے ہوا بے چین آنچل میں چھپانے کے لیے
بڑھ رہا ہے کرۂ گیتی کا شوق انتظار
لیکن ایسا انجم روشن جبین و تابناک
خود ہی ہو جاتا ہے اپنی تابناکی کا شکار