ہندوستان میں بڑھتی ہوئی مسلم دشمنی، بی جے پی کا اصل ایجنڈا کیا ہے؟
ہندوستان کے مسلمانوں کو کس قسم کے امتیازی سلوک کا سامنا ہے؟
بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے مسلمانوں کو روزگار، تعلیم، اور رہائش سمیت شعبوں میں شدید امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سیاسی طاقت کے حصول اور معاشی بہتری کی جدوجہد مزید مشکل ہوگئی ہے اور اکثر آئینی تحفظات کے باوجودمسلم اقلیت اپنے خلاف تشدد اور نفرت کے واقعات رونما ہونے کے بعد انصاف حاصل کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں کے دوران، پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ 2019 کے انتخابات میں، مسلمانوں نے صرف 5 فیصد نشستیں حاصل کیں۔ یہ جزوی طور پر بی جے پی کے عروج کی وجہ سے ہے، جب کہ 2022 کے وسط تک پارلیمنٹ میں مسلمان پارٹی کا کوئی ممبر نہیں تھا۔
اس اثنا میں، بھارت میں قائم غیر سرکاری تنظیم Common Cause کی 2019 کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پولیس کے نصف سے زیادہ آفیسرز کے مسلمانوں کے خلاف تعصب رکھتے ہیں۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جرائم کو روکنے کے لیے پولیس شاید ہی کبھی کوئی مداخلت کرتی ہے۔ بلکہ ایک طرح سے ایسے متشدد گروہوں کی سرپرستی بھی کی جاتی ہے ۔ حالیہ برسوں میں، عدالتوں اور سرکاری اداروں نے بعض اوقات ان سزاؤں کو کالعدم قرار دیا ہے یا ان مقدمات کو واپس لے لیا ہے جن میں ہندوؤں پر مسلمانوں کے خلاف تشدد میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔کئی ہندوستانی ریاستوں نے مسلمانوں کی مذہبی آزادیوں کو محدود کرنے والے قوانین کو تیزی سے منظور کیا ہے، جن میں تبدیلی مذہب کے خلاف قوانین اور اسکول میں سر پر اسکارف پہننے پر پابندی شامل ہے۔
مزید برآں، بی جے پی حکام نے مسلمانوں کو سزا دینے کے لیے عدالت سے ہٹ کر مختلف طریقے اور حربے بھی استعمال کرنا شروع کردیے ہیں۔ ان حربوں کو ناقدین "بلڈوزر جسٹس" کہتے ہیں۔ 2022 میں، متعدد ریاستوں میں حکام نے لوگوں کے گھروں کو تباہ کر دیا، یہ الزام لگا کر کہ مسمار کی گئی عمارتوں کے پاس مناسب اجازت نامے نہیں تھے۔ تاہم، ناقدین کا کہنا تھا کہ انھوں نے بنیادی طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا، کیونکہ انہوں نے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا تھا۔ان جبری مسماریوں پر ہندوستان کی سپریم کورٹ کے تحفظات ظاہر کرنے کے باوجود یہ عمل اب بھی جاری ہے۔
مودی سرکار نے مسلمانوں کے حوالے سے کیا متنازعہ اقدامات کیے؟
دسمبر 2019 میں، پارلیمنٹ نے منظوری دی اور مودی نے شہریت ترمیمی ایکٹ پر دستخط کیے، جو افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے ہندو، سکھ، بدھ، جین، پارسی، اور عیسائی تارکین وطن کے لیے شہریت کی تیز رفتار ٹریکنگ کی اجازت دیتا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قانون امتیازی ہے کیونکہ اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے اور شہریت کے سوال پر پہلی بار مذہبی معیار کا اطلاق ہوتا ہے۔ مودی حکومت کا استدلال ہے کہ یہ قانون کمزور مذہبی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے جنہیں ان تین مسلم اکثریتی ممالک میں ظلم و ستم کا سامنا ہے۔ اس صورت حال پر براؤن یونیورسٹی میں ہندوستانی فرقہ وارانہ تنازعات کے ماہر پروفیسر اشوتوش وارشنے کہتے ہیں کہ:’’ہندو قوم پرست جتنی دیر تک اقتدار میں رہیں گے، مسلمانوں کی حیثیت میں اتنی ہی بڑی تبدیلی آئے گی اور ایسی تبدیلیوں کو پلٹنا اتنا ہی مشکل ہوگا۔‘‘
بی جے پی نے اپنے 2019 کے انتخابی منشور میں شہریوں کے قومی رجسٹر (NRC) کو مکمل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ این آر سی 1950 کی دہائی میں ریاست آسام کی حکومت نے بنایا تھا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا وہاں کے باشندے ہندوستانی شہری تھے یا ہمسایہ ملک بنگلہ دیش ہے وہاں سے پناہ لینے آئے تھے۔ 2019 میں، آسام حکومت نے اپنے رجسٹر کو اپ ڈیٹ کیا، جس میں تقریباً 20 لاکھ افراد کو شامل نہیں کیا گیا۔ اگر اسے ملک بھر میں نافذ کیا جاتا ہے تو تمام ہندوستانیوں کو اپنی شہریت ثابت کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ عمل بہت سے مسلمانوں کو بے وطن بنا سکتا ہے کیونکہ ان کے پاس ضروری دستاویزات کی کمی ہے اور وہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے تحت ماڈرن شہریت کے اہل نہیں ہیں۔
مودی نے اس دوران ہندوستان کی واحد مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کی آئینی سیاسی حیثیت کوختم کر دیا ہے۔ اگست 2019 میں، حکومت نے ریاست جموں وکشمیر کو، جو پاکستان کے ساتھ تنازع میں واقع ہے، کو دو علاقوں میں تقسیم کیا اور اس کی خصوصی آئینی خودمختاری کو چھین لیا۔ اس کے بعد سے، ہندوستانی حکام نے کئی بار سیکورٹی کو برقرار رکھنے کی آڑ میں خطے میں لوگوں کے حقوق پر کریک ڈاؤن کیا ہے۔ صرف 2021 میں پچاسی بار انٹرنیٹ بند کیاگیا،مسلم صحافیوں کو ہراساں اور گرفتار کیاگیا، اور اہم سیاسی شخصیات اور کارکنوں کو حراست میں لیاگیا۔
مسلم دشمنی اورمسلم کشی کے انتہائی واقعات :
1992 میں شروع ہوئے شمالی شہر ایودھیا میں بابری مسجد پر تنازعات حالیہ دہائیوں میں جان لیوا ہو گئے ہیں۔ ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ مسلمان مغل سلطنت کے ایک سپہ سالار نے سولہویں صدی میں ہندو دیوتا رام کی جائے پیدائش پر مسجد تعمیر کی تھی۔ 1992 میں ہندو عسکریت پسندوں نے مسجد کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔ ایک اندازے کے مطابق تین ہزار لوگ، جن میں سے زیادہ تر مسلمان تھے، اُن فسادات میں مارے گئے تھے۔ تقسیم کے بعد مسجد کے لیے کئی مہلک مذہبی جھڑپیں ہوئیں۔ 2020 میں جب سپریم کورٹ نے مندر کی تعمیر کی منظوری دی تو مودی نے اس جگہ پر ایک نئے ہندو مندر کا سنگ بنیاد رکھا۔
2002 کے گجرات مسلم کش فسادات کے زخم ابھی تک کئی مسلمانوں کے دلوں میں تازہ ہوں گے۔ ایودھیا سے مغربی ریاست گجرات کے راستے ہندو زائرین کی ایک ٹرین میں آگ لگنے کے بعد ملک بھر میں جھڑپیں ہوئیں، جس میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے۔ آگ لگنے کا الزام مسلمانوں پر لگاتے ہوئے، پورے گجرات میں ہندوؤں نے سینکڑوں مسلمانوں کو قتل کیا، مسلم خواتین کی عصمت دری کی، اور مسلمانوں کے کاروبار اور عبادت گاہوں کو تباہ کر دیا۔ حزب اختلاف کے سیاست دانوں، انسانی حقوق کی تنظیموں، امریکی قانون سازوں،اور اس وقت کے گجرات کے وزیر اعلیٰ نے مودی اور بی جے پی پر تشدد کو روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہ کرنے اور بعض صورتوں میں اس کی حوصلہ افزائی کرنے پر تنقید کی۔ ہندوستانی حکومت کی اپنی تحقیقات میں کہا گیا ہے کہ ٹرین میں آگ ایک حادثہ تھا، لیکن اس کے باوجود ہزاروں مسلمانوں کی جان و مال کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔
مظفر نگر فسادات، 2013 مظفر نگر شہر کے نزدیکی قصبوں میں، مسلمانوں کے ساتھ جھگڑے میں دو ہندوؤں کی موت کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں ساٹھ سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ ایک اندازے کے مطابق پچاس ہزار مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ، جن میں سے زیادہ تر ان علاقوں کو چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ بہت سے لوگ مہینوں تک ریلیف کیمپوں میں رہے، اور کچھ کبھی گھر نہیں لوٹے۔
حالیہ برسوں میں متشدد ہندو گروہوں کے مسلمانوں پرحملے اس قدر عام ہو گئے ہیں کہ ہندوستان کی سپریم کورٹ نے خبردار کیا ہے کہ یہ حملے معمول کا حصہ بن سکتے ہیں۔ مسلم مخالف تشدد کی سب سے عام شکلوں میں سے ایک گروہ کا کام ان لوگوں کی خبر دینا ہے جو گائے کی تجارت کرتے ہیں، گائے کو بہت سے ہندو مقدس سمجھتے ہیں، لہذا ان اطلاعات کے بعد گاؤکشی کی افواہیں پھیلائی جاتی ہیں اور مسلمانوں کا قتل عام کیا جاتا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی 2019 کی رپورٹ کے مطابق، کم از کم 44 افراد، جن میں سے زیادہ تر مسلمان تھے، ان نام نہاد گاؤ رکھشا ہندو گروہوں کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔
اسی طرح "لو جہاد" کا الزام عائد کرنے کے بعدبھی مسلمان مردوں پر بھی حملے کیے گئے ہیں۔ ہندو گروہوں نے یہ اصطلاح ایسے مسلم مردوں کے لیے استعمال کی گئی ہے جو مبینہ طور پر ہندو خواتین کو مذہب تبدیل کرنے کے لیے بہکانے اور ان سے شادی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سیکڑوں مسلمان مردوں کو تبدیلی مذہب کے خلاف قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے جنہیں بی جے پی کی زیر قیادت کئی ریاستوں نے "لو جہاد" کو روکنے کی کوشش میں منظور کیا تھا۔
نئی دہلی میں جھڑپیں، 2020: جب مسلمانوں اور دیگر لوگوں نے نئی دہلی میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کیا تو ہندووں نے ظلم و ستم شروع کر دیا۔ دارالحکومت میں ہونے والے اس بدترین فرقہ وارانہ تشدد میں تقریباً پچاس افراد مارے گئے، جن میں سے زیادہ تر مسلمان تھے۔ بی جے پی کے کچھ سیاست دانوں نے مزید جلتی پر تیل چھڑکا اور تشدد کو بڑھاوا دیا اور پولیس نے مبینہ طور پر ہندو گروہوں کو مسلمانوں پر حملہ کرنے سے روکنے میں مداخلت نہیں کی۔ ہیومن رائٹس واچ کی 2021 کی رپورٹ میں پتا چلا ہے کہ حکام نےان واقعات میں پولیس کی جانب داری اور تعصب تحقیقات نہیں کیں، جبکہ انہوں نے ایک درجن سے زیادہ مظاہرین پر الزامات عائد کیے تھے۔
اسلامو فوبیا بیان بازی پر احتجاج، 2022: امسال مئی میں، بی جے پی کے دو عہدیداروں نے پیغمبر اسلام کے بارے میں گستاخانہ تبصرے کیے، جس کے نتیجے میں ہندوستان بھر میں احتجاج اور مسلم اکثریتی ممالک کی طرف سے مذمت کی گئی۔ بی جے پی نے بادل نخواستہ بالآخر عہدیداروں کو معطل کردیا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے عہدیداروں نے مسلمانوں کے خلاف حالیہ تشدد کو نظر انداز کیا ہے۔ نئی دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر غزالہ جمیل کہتی ہیں، ’’مودی کے پہلے پانچ سالہ دور میں، مسلمانوں پر مسلسل حملے ہوتے رہے، جس سے ان میں ایک طرح کے جبری محاصرے کا احساس پیدا ہواہے۔ اب یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر آپ مسلمان ہیں، تو آپ پر کہیں بھی، کسی بھی وقت حملہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘
کون ہندوستان کے سیکولرازم کو بچانا چاہتا ہے؟
ماہرین نوٹ کرتے ہیں کہ اگرچہ ہندوؤں میں مسلم مخالف جذبات بڑھ رہے ہیں، لیکن تمام ہندو اور بی جے پی کو ووٹ دینے والے تمام لوگ مسلم مخالف نہیں ہیں۔ مسلمان اور ہندو دونوں، بشمول کارکن، قانونی اسکالرز، اور طلباء، نے ہندوستان کے سیکولرازم کو کمزور کرنے کی بی جے پی کی چالوں کے خلاف جدوجہد کی ہے۔ مثال کے طور پر، شہریت ترمیمی ایکٹ منظور ہونے کے بعد، کئی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے کہا کہ وہ اس قانون کو نافذ نہیں کریں گے اور تقریباً دو ہزار ماہرین تعلیم اور پیشہ ور افراد نےان قوانین کوہندوستانی آئین کی روح کے خلاف قرار دیتے ہوئے ایک مذمتی قرارداد پر دستخط کیے تھے۔
بھارت میں بڑھتے ہوئے امتیازی سلوک پر عالمی اداروں اور حکومتوں کا ردعمل کیا ہے؟
بہت سی حکومتوں اور بین الاقوامی اداروں نے بی جے پی کے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی مذمت کی ہے، کشمیر میں اقدامات، شہریت ترمیمی ایکٹ، اور مسلم مخالف بیان بازی کو بین الاقوامی سطح پر تشویش کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے شہریت ترمیمی قانون کو "بنیادی طور پر امتیازی" قرار دیا۔ ایران، کویت اور قطر ان مسلم اکثریتی ممالک میں شامل تھے جنہوں نے 2022 میں سرکاری اہلکاروں کے اسلام و فوبیا پر مشتمل ریمارکس پر ہندوستان کے خلاف باضابطہ شکایات درج کرائی تھیں۔ اسلامی تعاون کی تنظیم (OIC)، جو ستاون رکن ممالک کی تنظیم ہے، نے ہندوستان سے مطالبہ کیا کہ وہ "اسلام کے خلاف نفرت اور بدنامی کے بڑھتے ہوئے رجحان" اور "ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف منظم طرز عمل" کو روکے۔
لیکن دوسری طرف طاقت ور ممالک ہندوستان سے اپنے معاشی و تزویراتی مفادات کے باعث مسلم دشمن اقدامات پر ہندوستان کی مخالفت اور سرزنش سے اجتناب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ امریکی انتظامیہ ہندوستان کی مسلم اقلیت سے بدسلوکی کو علانیہ طور پر کہیں اٹھانے سے گریزاں ہے ۔ اس کے برعکس، جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فروری 2020 میں ہندوستان کا دورہ کیا، تو انہوں نے مودی کی مذہبی آزادی کے عزم کی تعریف کی اور دہلی میں تشدد کے پھیلنے کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ جو بائیڈن انتظامیہ نے مبینہ طور پر نام نہاد کواڈ (Quadrilateral Security Dialogue ) کے ذریعے بھارت کے ساتھ تعاون کو بڑھاتے ہوئے نجی طور پران واقعات پر خدشات کا اظہار کیا ہے لیکن سرکاری طور پر کوئی احتجاج ریکارڈ نہیں کروایا گیا۔
دریں اثنا، اپنی 2020 کی رپورٹ میں، امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے، ہندوستان کو 2004 کے بعد پہلی بار "خاص تشویش کا حامل ملک" قرار دیا اور اس کو مذہبی رواداری کے حوالے سے سب سے کم درجے کے طور پر شمار کیاہے ۔ تازہ ترین رپورٹوں نے اسی درجہ بندی کو برقرار رکھا ہے اور امریکی حکومت پر زور دیاہے کہ وہ مسلم دشمنی، تشدداور نفرت پھیلانے کے ذمہ دار ہندوستانی اہلکاروں پر پابندی عائد کرے۔
اس مضمون کا پہلا حصہ پڑھنے کے لیے کلک کیجیے