ہندوستان میں بڑھتی ہوئی مسلم دشمنی کا نشانہ مسلمان کس طرح بن رہے ہیں؟
ہندوستان کی مسلم آبادی کو کئی دہائیوں سے امتیازی سلوک کا سامنا ہے، جو ہندو قوم پرست بی جے پی کی حکومت کے تحت مزید بدتر ہوا ہے۔
ہندوستان میں تقریباً 200 ملینیا بیس کروڑ مسلمان آباد ہیں، جو دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادیوں میں سے ایک ہے لیکن ہندو اکثریتی ملک میں مسلمان ایک اقلیت ہیں۔ہندوستان کی تقسیم کے بعد سے، مسلمانوں کو آئینی تحفظات کے باوجود منظم امتیازی سلوک، تعصب اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں، عالمی اداروں اور سماجی انصاف کے ماہرین کا کہنا ہے کہ نریندر مودی اور حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار حاصل کرنے کے بعد سے مسلم مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے، جو کہ 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ہندو قوم پرست ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔2019 میں مودی کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد سے، حکومت نے متنازعہ پالیسیوں کو آگے بڑھایا ہے جن کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ ان میں واضح طور پر مسلمانوں کے حقوق کو نظر انداز کیا گیا ہے ۔ مودی کے دور میں مسلمانوں کے خلاف تشدد عام ہوگیا ہے۔
ہندوستان کی مسلم آبادی کل آبادی کا کتنے فیصد ہے؟
ہندوستان مذہبی، نسلی اور لسانی تنوع کا ملک ہے۔ اس میں اندازے کے مطابق 200 ملین مسلمان، جن میں سے اکثر سنی ہیں، آبادی کا تقریباً 15 فیصد بنتے ہیں، جو اب تک کا سب سے بڑا اقلیتی گروہ ہے۔ ہندو کل آبادی کاتقریباً 80 فیصد بنتے ہیں۔ ملک کی مسلم کمیونٹیز متنوع ہیں، جو زبان، ذات پات، نسل اور سیاسی اور معاشی طاقت کے لحاظ سے خاصا فرق رکھتے ہیں۔
ہندوستان کی تقسیم نے ہندو مسلم تعلقات کو کیسے متاثر کیا؟
ہندوستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان یوں تو مثالی تعلقات کبھی بھی نہیں رہے لیکن انگریزوں کی برصغیر سے رخصتی اور 1947 میں برطانوی ہندوستان کی تباہ کن تقسیم سے یہ تعلقات شدید متاثر ہوئے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد معاشی طور پر تباہ حال انگریزوں کے پاس اپنی سلطنت کو برقرار رکھنے کے لیے وسائل کی کمی تھی اور وہ برصغیر چھوڑ کر چلے گئے۔ تقسیم سے پہلے کے سالوں میں، انڈین نیشنل کانگریس پارٹی نے، مہاتما گاندھی اور جواہر لعل نہرو کی قیادت میں، آزادی کے لیےجدوجہد برطانوی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کیا۔اسی دوران، آل انڈیا مسلم لیگ نے، جس کی قیادت محمد علی جناح کررہے تھے، نے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کیا۔ 1947 میں، ایک برطانوی جج نے عجلت میں ہندو اکثریت والے ہندوستان اور مسلم اکثریتی پاکستان (بشمول موجودہ بنگلہ دیش) کے لیے سرحدوں کا فیصلہ کیا۔ تقسیم نے مہلک فسادات، بھیانک فرقہ وارانہ تشدد، اور مسلمانوں کی پاکستان اور ہندوؤں اور سکھوں کی ہندوستان کی طرف بڑے پیمانے پر ہجرت کو جنم دیا۔ زندہ بچ جانے والے خون میں بھیگی ٹرینوں کو یاد کرتے ہیں جو پناہ گزینوں کو ایک ملک سے دوسرے ملک لے جاتی تھیں۔ ان فسادات میں گاؤں کے گاؤں جلا دیے جاتے تھے، اور لاشیں گلیوں میں پھینکی جاتی ہیں۔ مورخین کا اندازہ ہے کہ بیس لاکھ کے قریب لوگ مارے گئے تھے۔ سیکڑوں سالوں سے ایک ساتھ رہنے والے لوگوں نے ایک دوسرے پر حملہ کیوں کیا ،یہ بات آج بھی موضوع بحث ہے۔
ہندوستان کے آئین میں مذہب کا عنصر کیسے آیا؟
ہندوستان اپنے آئین کے لحاظ سے ایک سیکولر ملک ہے جس کا ستر سال پرانا آئین مساوات کے اصولوں کو واضح کرتا ہے، جس میں سماجی مساوات اور ہر ایک کے ساتھ غیر امتیازی سلوک کی دفعات بھی شامل ہیں۔ لفظ "سیکولر" کو 1976 میں آئین کے دیباچہ میں شامل کیا گیا تھا، لیکن آئین میں واضح طور پر مذہب اور حکومت کی علیحدگی کی دفعات شامل نہیں ہیں۔
ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی کانگریسی پارٹی کے ابتدائی قائدین نے ایک ایسے ہندوستان کی تشکیل کی کوشش کی تھی جو تمام شہریوں اور ان کے عقائد کو مساوی تسلیم کرے۔کانگریس کے سربراہ مہاتما گاندھی نے امتیاز سے پاک سیکولر ریاست کا تصور دیا تھا، لیکن کہا جاتا ہے کہ ان کے سیکولر تصورات کی وجہ سے ہی 1948 میں ایک ہندو قوم پرست نے انہیں قتل کر دیا تھا۔اسی طرح نہرو، ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم، کا خیال تھا کہ سیکولرازم ایک پرامن معاشرے کی تعمیر اور تقسیم کے بعد ایسے ایک اور سانحے سے بچنے کے لیے ضروری ہے۔ اس نے ہندوستان کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کی کوشش کرنے والوں کو، خاص طور پر ہندو گروہوں کو ملک کے لیے سب سے بڑے خطرے کے طور پر دیکھا۔
قوم پرست ہندو اقتدار میں کیسے آئے؟
ہندو قوم پرستی کو پہلی بار 1920 کی دہائی میں ہندوستانی مصنف اور سیاست دان وی ڈی ساورکر نے اپنی کتاب ہندوتوا: ہندو کون ہے، میں بیان کیا تھا۔ ہندو قوم پرستوں کا خیال ہے کہ ہندو ہندوستان کی مٹی کے سچے بیٹے ہیں کیونکہ ان کی مقدس زمینیں ہندوستان میں ہیں، جب کہ عیسائی اور مسلمانوں کی مقدس سرزمینیں اس سرزمین سے باہر ہیں۔ ان کی پالیسیوں کا مقصد ہندوستان کو ایک ہندو ریاست بنانا ہے۔ ہندوتوا کے حامی لوگ ہندوستانی مسلمانوں کو مشتبہ غیر ملکیوں کے طور پر دیکھتے ہیں، اس حقیقت کے باوجود کہ زیادہ تر مسلمان ہندوؤں کی ہی اولادیں ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا۔ قوم پرست ہندو تقسیم اور پاکستان کے قیام کو مسلمانوں کی بے وفائی کا حتمی مظہر قرار دیتے ہیں۔
ہندوتوا کے ان نظریات نے 1980 کی دہائی میں ہندوستان کے سیکولر ماڈل کے تصور کو تاراج کرناشروع کر دیا۔ 1977 میں انتخابی شکست کا سامنا کرنے کے بعد، وزیر اعظم اندرا گاندھی نے کانگریس پارٹی کو اقتدار میں واپس لانے میں مدد کے لیے مذہبی فرق کا غلط فائدہ اٹھایا۔ گاندھی، جنہیں 1948میں سکھ محافظوں نے قتل کر دیا تھا، ان کے بعد ان کے بیٹے راجیو نے ہندوؤں کی حمایت کی ۔ کنچن چندرا فارن افیئرز میں لکھتی ہیں، "کئی دہائیوں کے دوران کانگریس کی ہندو اکثریت پسندی کی طرف مسلسل پیش قدمی نے بی جے پی کے انتہا پسند نظریہ کے لیے راہ ہموار کی۔"
1980 میں قائم ہونے والی، بی جے پی کی ابتدا راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سیاسی ونگ سے ہوتی ہے، جو ایک ہندو قوم پرست نیم فوجی رضاکار گروپ ہے۔ بی جے پی 1998 کے انتخابات میں برسراقتدار آئی، لیکن اس نے 2004 تک،جب کانگریس پارٹی نے دوبارہ اقتدار حاصل کیا تو اس نے اتحاد قائم کرنے کے لیے اپنے انتہا پسند اہداف کو خفیہ رکھا۔ ان اہداف میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ ، ایودھیا کے شمالی شہر میں ایک ہندو مندر کی تعمیر؛ اور ایک یکساں سول کوڈ بنانے جیسے خطرناک عزائم شامل تھےجن میں سے ایک اہم ہدف، یعنی کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بی جے پی حکومت کرچکی ہے اور باقی اہداف کی طرف اب تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
2014 میں، بی جے پی نے پہلی بار لوک سبھا یعنی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں اور ہندوستان کی سب سے بااثر سیاسی تنظیم میں واحد پارٹی اکثریت حاصل کرکے پارٹی کے رہنما نریندر مودی کو وزیر اعظم بنا دیا۔ مسلم مخالف پیغامات سے بھری تفرقہ انگیز انتخابی مہم کے بعد پارٹی نے 2019 میں دوبارہ اکثریت حاصل کی، اور مودی کی حکومت 2024 تک اپنی پانچ سالہ مدت کے لیے اقتدار میں موجود ہے۔