امتحاں ضبط کا پھر بزم گہہ ناز میں ہے
امتحاں ضبط کا پھر بزم گہہ ناز میں ہے
جلوۂ طور نگاہ غلط انداز میں ہے
اہل دل دیدۂ تر دیکھ کے پہچان گئے
میں سمجھتا تھا مری بات ابھی راز میں ہے
آشیانے کو نہیں برق نوازی سے پناہ
ایک ہی لطف وہی سوز میں ہے ساز میں ہے
میرے مٹنے کا کریں سوگ کسی کے دشمن
کیوں اداسی سی کسی جلوہ گہہ ناز میں ہے
جان نغمہ ہے مرے ٹوٹے ہوئے دل کی صدا
اک یہی تار شکستہ ہے جو ہر ساز میں ہے
گل و بلبل سے عداوت نہیں کیفیؔ لیکن
کیوں ہوں بیزار چمن سے یہ ابھی راز میں ہے