توشہ خانہ کیس میں عمران خان نااہل: آخر عمران خان کی نااہلی کتنی ہوگی؟
پاکستان کی سیاست میں ایک اور بھونچال۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ عمران خان توشہ خانہ کیس میں نااہل۔ پاکستان کی تاریخ میں کئی اہم فیصلے جمعے کو جاری ہوئے اور یہ فیصلہ بھی آج جمعے کے دن ہی آیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر اسکندر سلطان کی سربراہی میں چار رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا۔ یہ فیصلہ پی ڈی ایم کی جانب سے اگست میں دائر درخواست پر سنایا گیا۔اس درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل کردہ تحائف الیکشن کمیشن میں جمع شدہ اثاثہ جات میں نہیں دکھائے۔ لہٰذا وہ صادق و امین نہیں رہتے۔ انہیں نااہل کیا جائے۔ اس درخواست پر اب الیکشن کمشن نے فیصلہ سنا دیا ہے۔
فیصلے کی کاپی تاحال تو دستیاب نہیں، تاہم اس کی گرد بہت اڑ رہی ہے۔ اس گرد میں یہ تک واضح نہیں کہ عمران خان پر آئین کی کون سی شق کا اطلاق کیا گیا ہے۔ کیا یہ 62 1F ہے جو میاں نوازشریف اور یوسف رضا گلانی پر لگی۔ یا پھر کوئی اور۔
بہر کیف ڈان اخبار نے اب تک رپورٹ کیا ہے کہ اسے فیصلے کے کچھ صفحات موصول ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق فیصلے میں درج ہے کہ عمران خان نے جان بوجھ کر الیکشن ایکٹ 2017 کی شقوں 137، 167 اور 173 کی خلاف ورزی کی ہے۔ انہوں نے 2021 میں الیکشن کمیشن میں جمع شدہ اثاثہ جات کی تفصیلات میں جھوٹ بولا ہے۔ اس بنا پر انہیں آئین کے آرٹیکل 63 1P کے تحت ناہل کیا جاتا ہے۔ یاد رہے یہاں 62 F نہیں۔
آگے کیا ہوگا؟
اس کا جواب تو شاید کسی کے پاس نہیں۔ لیکن کچھ بڑے بڑے سوالات سیاسی میدان میں اور میڈیا پر اٹھائے جا رہے ہیں۔ ان کے جوابات ہی مستقبل کا فیصلہ صفحہ قرطاس پر لکھیں گے۔
سوالات کیا ہیں؟
عمران خانب کی نااہلی کتنی کی ہوگی؟عمران خان اور ان کی ٹیم نے اس نااہلی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردا ہے تو کیا اسلام آباد ہائی کورٹ عمران کو ریلیف دے دے گی؟ اگر دے دے گی تو پھر نواز شریف کی نااہلی کا کیا ہوگا؟کیا انہیں بھی ریلیف ملے گا؟ اس فیصلے میں عمران خان کی ناہلی کتنی دیر کی ہے؟ یہ سپریم کورٹ کے 2018 کے فیصلے سے کیسے متاثر ہوگی؟ آخر الیکشن کمیشن نااہلی کا فیصلہ کر بھی سکتا تھا؟ کیا پی ڈی ایم نے عمران خان سے سیاسی انتقام کے لیے درست فورم چنا؟ ان نااہلیوں کے نتیجے میں خود آئین کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کا مستقبل کیا ہے؟ کیا وہ برقرار رہیں گے یاان میں بھی کوئی ترمیم ہوگی؟