املا اور رسم خط

صدرِ محترم، مہمان خصوصی، ڈائرکٹر اردو تدریسی و تحقیقی مرکز، خواتین وحضرات!


میں ڈائرکٹر اردو تدریسی و تحقیقی مرکز لکھنؤ کا ممنون ہوں کہ انھوں نے اس اہم سیمینار کے افتتاح کے لیے مجھے یاد کیا۔ جب سے یہ مرکز قائم ہوا ہے، اس نے قواعد زبان اور تدریس زبان کی طرف خصوصی توجہ کی ہے۔ رسمِ خط پر اس کا یہ سیمینار ایک اور اہم اقدام ہے۔ رسمِ خط کے مسئلے پر یوں عرصے سے لکھا جا رہا ہے مگر مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تدریسی اور تعلیمی ضروریات پر وہ توجہ نہیں ہوئی جس کی ضرورت ہے۔ نیز ان استادوں کے تجربے سے پورا فائدہ نہیں اٹھایا گیا جو بچّوں یا ان پڑھ بالغوں یا دوسری ملکی زبانیں جاننے والوں یا غیر ملکی طلبا کو اردو سکھاتے ہیں۔


میں لسانیات یا صوتیات کا ماہر نہیں، ادب کا طالب علم ہوں۔ لیکن میری یہ کوشش ضرور رہی ہے کہ لسانیات اور صوتیات کی عطا کردہ معلومات سے بیگانہ نہ رہوں۔ اور تعلیمی نقطۂ نظر خاص طور سے میرے پیش نظر رہا ہے۔ مجھے یہ بھی اعتراف ہے کہ ابتدائی منزل پر اردو کی تعلیم کا میرا تجربہ برائے نام ہے۔ ثانوی تعلیم کی منزل سے میرا کچھ تعلق رہا ہے مگر زیادہ تر بی۔ اے۔ اور ایم۔ اے۔ کی تعلیم اور ریسرچ کی نگرانی میں عمر گذری ہے۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں بی۔ اے، بی۔ ایس سی، بی کام کی منزل پر اردو لازمی مضمون کی حیثیت سے پڑھائی جاتی ہے اور یہ لازمی مضمون بالکل ابتدائی، ابتدائی اور اعلیٰ اردو کے نام سے پڑھایا جاتا ہے، اس کی نگرانی خاصی مدّت تک میں نے کی ہے اور اس کے لیے کتابیں مرتب کرائی ہیں۔ اس کے لیے ہارون خاں شروانی، مسعود حسن رضوی، ڈاکٹر عبدالستّار صدیقی، سجاد مرزا، املا نامہ مرتبہ گوپی چند نارنگ اور اردو املا از رشید حسن خاں بھی میری نظر سے گذری ہیں۔


۱۹۵۷ء میں انجمن ترقی اردو ہند کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے میں نے اردو رسمِ خط کے سلسلے میں ایک سوال نامہ جاری کیا تھا اور جو جوابات موصول ہوئے تھے، ان پر غور کرنے لیے ایک کمیٹی بنائی تھی مگر ان کمیٹی کی سفارشات پر انجمن کی ۱۹۵۸ء کی کانفرنس میں خاصی برہمی کا اظہار کیا گیا اور یہ معاملہ جہاں کا تہاں رہ گیا۔ یہ مسئلے کانفرنسوں سے نہیں طے ہوتے۔ ماہرین مل بیٹھ کر غور و خوض کریں اور تعلیمی نقطۂ نظر سے ہر پہلو کو جانچیں اور اس کے بعد ٹھوس تجاویز اردو دوستوں کے سامنے آئیں تو اس کا امکان ہے کہ اس اہم معاملہ میں کوئی قرار واقعی پیش رفت ہو سکے۔ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ حالات اور وقت نے کچھ اصلاحیں کر بھی دی ہیں اور ایک خاصا بڑا حلقہ ان پر عمل بھی کرتا ہے۔


ڈاکٹر عبد الستار صدیقی کی رائے کی روشنی میں انجمن ترقی اردو ہند نے ناگپور کے اجلاس میں کچھ تجاویز منظور بھی کی تھیں اور انجمن کی مطبوعات میں ۱۹۴۷ء تک ان پر بڑی حد تک عمل بھی ہوا تھا مگر آزادی اور ملک کی تقسیم کے بعد اصلاح کا جذبہ دھیما پڑ گیا۔ کیوں کہ اردو کی بقا کا مسئلہ سامنے آ گیا تھا۔ اس لیے نفسیاتی طور پر لوگ کسی قسم کی تبدیلی پر تیار نہ تھے۔ گذشتہ سال بمبئی یونیورسٹی نے اس موضوع پر ایک سیمینار کیا تھا جس میں بعض قابلِ قدر مقالے پڑھے گئے تھے۔ میں اس سیمینار میں شریک نہ ہو سکا مگر معلوم ہوا کہ اصلاح کی تجاویز کی مخالفت خاصی شدید تھی اس لیے میں اس مرکز کی طرف سے رسمِ خط پر سیمینار کا خیر مقدم کرتا ہوں۔


میں شروع میں کہہ دوں کہ میں اردو رسمِ خط کو ترک کر کے دیوناگری یا رومن رسمِ خط کے اختیار کرنے کے حق میں نہیں۔ تہذیبی، ادبی اور جمالیاتی نقطۂ نظر سے یہ رسمِ خط اب ہماری زبان کی تاریخ، اس کے ادب، اس کی ہمہ گیری، اس کی حسن کاری سے جڑا ہے۔ یہ ہماری زبان کی شناخت (IDENTITY) اور اس کے امتیاز کا علم بردار ہے۔ ہمارے دستور میں جہاں لسانی اقلیتوں کو بقا اور ترقی کی ضمانت دی گئی ہے وہاں اس کے رسمِ خط کے حفاظت کی بھی۔ اب اس کی حمایت ہمارا لسانی فریضہ ہی نہیں جمہوری فریضہ بھی ہے۔ مگر رسمِ خط کو باقی رکھنے اور اس میں جدید دور کی ضروریات کے مطابق اصلاح کرنے، تعلیمی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے یکسانیت، سہولت، انجذاب (ASSIMILATION) کی خاطر کچھ اصلاحات تجویز کرنے میں جو دانش مندی ہے اس کو کسی طرح نظر انداز نہ کرنا چاہیے۔ اس نکتے کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ آئیے اب چند بدیہی اور بنیادی باتوں کا تذکرہ ہو جائے۔


اردو ایک جدید ہند آریائی زبان ہے جس کی بنیاد کھڑی بولی پر ہے۔ اس میں عربی، فارسی ترکی کے الفاظ ایک چوتھائی سے زیادہ نہیں اور تین چوتھائی یا تو دیسی الفاظ ہیں یا دیسی الفاظ سے مل کر وجود میں آئے ہیں۔ ادھر انگریزی اور ہندی کے الفاظ بھی خاصی تعداد میں زبان میں داخل ہو گئے ہیں اور یہ قدرتی تھا۔ عربی، فارسی یا کسی اور زبان کے جو الفاظ اردو میں رائج ہو گئے ہیں وہ اب اردو کے الفاظ ہیں۔ انشا کی دریائے لطافت میں اس حقیقت کا اعلان انیسویں صدی کے شروع میں کر دیا تھا مگر ایک حلقے میں اس کے مضمرات پر وہ توجہ نہیں ہوئی جو ہونی چاہیے تھی۔


میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اردو، اردوئے معلّیٰ اور اردئے مصفّیٰ میں فرق کرنا چاہیے۔ یعنی جب ہم اردو میں عجم کے حسن طبیعت اور عرب کے سوز دروں پر اصرار کرتے ہیں تو اس کے ساتھ بلکہ اس سے پہلے ہمیں اردو کی ہندوستانی بنیاد پر اصرار کرنا چاہیے اور زبان کے قواعد اور افعال، حروف جار اور ضمائر کی نوعیت کو فراموش نہ کرنا چاہیے۔ میرے نزدیک خسؔرو سے لے کر آج تک کا سارا لسانی سرمایہ ہمارا ہے۔ متروکات اور اصلاحِ زبان کے پیچھے جو نظریہ تھا وہ زبان کی جینس کا کام اور خواص پرستی کا زیادہ آئینہ دار تھا۔


اردو زبان اپنے ارتقا کے دوران مختلف مراحل سے گذری ہے۔ بازار کا چلن، صوفیوں کا پیام محبت اور دربار کی رنگینی اور مستی سب نے مل کر اس کا رنگ بنایا ہے۔ وجہی کی سب رس، قلی قطب شاہ کی شاعری، ولی کا تغزل، میر و سودا کی تازہ کاری اور لالہ کاری، نظیر کا اپنی تہذیب سے عشق، غالب کا گنجینۂ معنی کا طلسم، حالی کی سادگی، جوش اور اصلیت، سرسید کا سوز، ابوالکلام آزاد کا غبارِ خاطر، اقبال کا صحیفۂ کائنات، پریم چند کی آدرشی حقیقت نگاری، شوق قدوائی کا عالم خیال اور آرزو لکھنوی کی سریلی بانسری سب مل کر اردو کی قوس قزح بناتے ہیں۔ غالب کی غزل کے یہ اشعار،


نقش فریادی ہے کس کی شوخئ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا


کاوکا و سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا


اور آرزو لکھنوی کے یہ اشعار،


رن میں گھوڑا جو اڑاتے ہوئے آئے عباس
چوکیاں گھاٹ پہ بیٹھی تھیں رکا تھا پانی


وہ لچکتی ہوئی ڈانڈیں وہ چمکتے ہوئے پھل
دھوپ میں اور بھی کھولا ہوا ان کا پانی


دونوں معیاری اردو کی وسعت کو ظاہر کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ زبان جتنی ترقی کرتی جاتی ہے مجموعی طور پر وہ سادہ اور پرکار ہوتی جاتی ہے۔ نثر میں تو واضح طور پر ارتقا رنگینی سے سادگی کی طرف ہوتا ہے مگر شاعری تازہ کاری کی خاطر بقول ارسطو استعاراتی ہوتے ہوئے زیادہ تر عام زبان پر مبنی ہوتی ہے۔ انگلستان میں سترھویں صدی تک نثر کی زبان خاصی آرائشی تھی۔ اٹھارویں صدی میں بات کو سادہ طور سے کہنے کا سلیقہ آیا۔ آج انگریزی نثر کا معیار ایلیٹ، برٹرینڈ رسل، برناڈشا، چرچل کی نثر ہے۔ امریکہ کے پروفیسروں کی نثر نہیں۔ اس طرح جدید اردو نثر میں فسانۂ عجائب کی نثر سے بہتر سر سیّد کی نثر، ابوالکلام آزاد کی نثر سے بہتر عبد الحق کی نثر اور نیاز فتح پوری کی نثر سے بہتر عابد حسین کی نثر ہے۔


جدید اردو نثر پر قدرتی طور سے ہندی اور انگریزی دونوں کا اثر ہوگا مگر وہ عربی اور فارسی کے ان الفاظ سے شرمائے گی نہیں جو اس کے لسانی سرمائے کا قیمتی حصّہ ہیں۔ انھیں حسبِ ضرورت استعمال کرے گی۔ علمیت کا رعب جمانے یا ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانے کے لیے نہیں۔


اردو زبان ایک آزاد اور خود مختار زبان ہے۔ یہ کھڑی بولی سے نکلی ہے اور اس کا ابتدائی روپ ہندی، ہندوی میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ہندی، ہندوی کا تسلسل در اصل اردو میں نظر آتا ہے۔ جدید ہندی تو در اصل انیسویں صدی کے آغاز سے شروع ہوئی۔


اگر اردو والے کبیر، میر، سور، تلسی اور نانک کے سرمائے کو قدیم اردو کا ایک روپ سمجھ کر برتتے جس طرح دکنی کو وہ قدیم اردو کہہ کر برتتے ہیں تو امرت رائے جیسے کج فہموں کو یہ کہنے کہ ہمّت نہ ہوتی کہ اردو کو دانستہ طور پر علیحدگی پسندی کے جذبے کے تحت ہندی، ہندوی کی شاہراہ سے ہٹا کر عربی فارسی کے کوہستان کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ وہ سارا ذخیرۂ الفاظ خواہ وہ سنسکرت کے تدبھو الفاظ سے آیا ہو یا عربی فارسی کے ان الفاظ سے جنھیں مہند کر لیا گیا ہے، اب اردو کی ملکیت ہے۔ جس طرح جدید ہندی میں تتسم الفاظ بکثرت لانے کی روش الٹی گنگا بہانے کے مترادف ہے، اسی طرح اردو میں عربی فارسی کے ان الفاظ کو اس طرح لکھنا اور بولنا جس طرح وہ عربی یا فارسی میں بولے اور لکھے جاتے ہیں کعبہ کو ترکستان ہو کر جانے کے مترادف ہے۔ ایک دفعہ اسی لکھنؤ میں میں نے مہاراجا محمود آباد (مرحوم) کے سامنے غالب کا یہ شعر پڑھا،


عِجز و نیاز سے تو نہ آیا وہ راہ پر
دامن کو آج اس کے حریفانہ کھینچئے


تو مہاراجا صاحب نے فرمایا۔ حضرت عِجز نہیں عَجز پڑھیے۔ میں نے عرض کیا میں اردو کا شعر پڑھ رہا ہوں۔ اسی طرح جو لوگ مملکت کو مملکت، سمت کو سَمت،، فضا کو فَضا لکھنے لگے ہیں یا جو مشکور کو متشکر یا کلمے کو کلمہ لکھنے پر فخر کرتے ہیں وہ زبان کی جینس کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔ اور اردو زبان کی آزادی اور خود مختاری کو مجروح کرتے ہیں۔ وضع اصطلاحات میں وحیدالدین سلیم نے درجنوں ایسی مثالیں دی ہیں جس میں ہندی اور فارسی الفاظ کی ترکیب ملتی ہے۔ جس طرح فوق البھڑک صحیح ہے اسی طرح لب سڑک بھی صحیح ہے۔ اردو کے قاعدے سے جمع بنانا کسی طرح فارسی عربی کے قاعدے کے مطابق جمع بنانے سے کمتر نہیں ہے۔ ہم دونوں کا استعمال حسبِ ضرورت کر سکتے ہیں۔


اس کے ساتھ یہ بات بھی قابلِ تردید ہے کہ اگر چہ ہمارا رسم خط عربی اور فارسی سے ماخوذ ہے مگر اس میں جن ہندی آوازوں کا اضافہ ہوا ہے اور جس طرح اس میں ابتدا سے ہی زبان کا سرمایہ ملتا ہے اس کے باعث اب یہ اردو رسم خط ہے۔ کئی صدیوں کے چلن اور دراوڑی، آریائی اور سامی زبانوں کی بیشتر آوازوں کی وجہ سے یہ اب عربی یا فارسی رسمِ خط سے ممتاز ہو گیا ہے۔ اس کی دو صورتیں ہیں نسخ اور نستعلیق۔ یہ واقعہ ہے کہ طباعت میں نسخ کا استعمال بہت پہلے ہوا۔ فورٹ ولیم کالج کی مطبوعات، سرسیّد کی سائنٹی فک سوسائٹی کی کتابوں، گزٹ اور تہذیب الاخلاق میں نسخ ہی برتا گیا۔ اردو ٹائپ نسخ ہی میں ہے جس میں نستعلیق کے کچھ اجزاء کا اضافہ کر لیا گیا ہے۔


بیسویں صدی میں نسخ میں بہت سی کتابیں چھاپی گئی ہیں مگر بحیثیت مجموعی اردو میں طباعت زیادہ تر نستعلیق میں ہوئی ہے اور یہی رسمِ خط بچوں کو سکھایا جاتا ہے اور عارف وعامی، بچوں اور بوڑھوں سب کی تحریر میں یہی نستعلیق رائج ہے۔ اس کی وجہ سے ہماری طباعت اب تک خاصی پسماندہ تھی مگر اب فوٹو آفسیٹ کی وجہ سے طباعت میں صحت، صفائی اور پھرتی آ گئی ہے۔ حال میں نوری نستعلیق ٹائپ کمپوٹر کی مدد سے تیار کیا گیا ہے اور اخبار جنگ پاکستان کے کچھ حصّے اس ٹائپ میں چھپتے ہیں۔


ہندوستان میں بھی ایک کمپنی کمپوٹر کی مدد سے نستعلیق ٹائپ تیار کر چکی ہے۔ اس لیے اب نسخ کے بجائے نستعلیق ٹائپ کے استعمال کا جواز ہے۔ نستعلیق کی حسن کاری مسلم ہے۔ خطاطی کو اس نے فنِ لطیف بنا دیا۔ خطاطی کی ضروریات کی وجہ سے ہی حرف کی شکلیں شروع، درمیان اور آخر میں مختلف ہوئیں۔ کرسی کا مسئلہ بھی تھا مگر دائروں کے حسن کو لکیروں اور خطوط کے حسن پر ترجیح کی کوئی وجہ نہیں۔ دونوں میں حسن ہے۔ سرو کے درخت میں بھی اور تاج محل کے گنبد میں بھی۔ حسن تو موزونیت کا دوسرا نام ہے مگر حسن کو افادیت پر ترجیح دینے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ بقول شخصے افادیت میں حسن ہے۔


میں حروف کی موجودہ صوری ترتیب کو بدلنے کے حق میں نہیں ہوں۔ صوتیاتی نقطۂ نظر کی اہمیت مسلم ہے مگر املانامہ میں درست کہا گیا ہے کہ زبان کی صوتیات اس کی سماجیات سے ہٹ کر کوئی معنی نہیں رکھتی۔ صوری ترتیب کو غور سے دیکھا جائے توب کی شکل آشنا ہونے کی وجہ سے پ سے ث تک، ج کی شکل سے آشنا ہونے کی بعد خ تک اور اس طرح ایک گروپ کے ایک حرف کے ذریعہ سے اس سلسلے کے دوسرے حروف یا رخوں سے آشنا ہونا آسان ہے۔ اس طرح ان حروف کی تعداد جن کی شکل سے آشنا ہونا چاہیے خاصی کم ہو جاتی ہے۔ مشکل اس وقت پیش آتی ہے جب حروف کی شکلیں بدل جاتی ہیں اور اردو سیکھنے والے کی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔


مجھے ذاتی طور پر اس کا علم ہے کہ بہت سے لوگوں نے غزل کی چاشنی یا فلموں کے چٹخارے کی وجہ سے اردو سیکھنا چاہی مگر املا کے ہفت خواں سے گذر نہ سکے۔ بھلا بسیرا، بحث، براتی، بقراط، ناگفتہ بہ اسپ کی اتنی شکلیں کیوں۔ سجاد مرزا نے اپنی بنیادی ٹائپ میں اس کا حل یہ تجویز کیا تھا کہ ہر حرف جو دوسرے حرف سے ملتا ہے اس کی دو سے زیادہ شکلیں نہ ہوں۔ ایک پوری۔ ایک آدھی۔ اور آدھی شکل پوری شکل کا ایک حصّہ ہو، مثلاً عمیق میں ع کی جو شکل ہے وہ بعد میں نہیں۔ بنیادی ٹائپ میں پوری ع اور آدھی ع کی سفارش کی گئی ہے یعنی اس کے اوپر کی نصف کی۔ اس کے مطابق ب کی بھی دو شکلیں ہوں گی پوری ب اور بدی والی ب۔ اگر حروف کی شکلوں میں تبدیلی نہ ہو تو اردو رسمِ خط کا سیکھنا قدرتاً آسان ہو جائے گا۔ ہمیں یہ نہ دیکھنا چاہیے کہ ہم کس طرح یہ حرف مختلف جوڑوں میں لکھنے کے عادی ہیں، بلکہ دیکھنا چاہیے کہ جو ہم سے اردو سیکھ رہا ہے یا جو ان پڑھ اردو پڑھنا چاہتا ہے یا جو کوئی ملکی زبان جاننے والا یا غیر ملکی اردو سیکھنا چاہتا ہے، اسے کس طرح آسانی سے جلد اور جدید طریقے کے مطابق اردو سکھائی جا سکے گی۔


کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ س، ث، ص کے بجائے صرف س، ز، ذ، ض کے بجائے صرف ز، ت، ط کے بجائے صرف ت، ح، ہ کے بجائے صرف ہ کافی ہے۔ مگر بعد اور باد، مالوف اور معلوم، حضرت اور ہزار داستان کی آوازوں میں فرق ضرور ہے۔ جعفر حسن اپنا نام جافر (ج ا ف ر) لکھتے تھے اور حسن کوہ ہوز سے۔ میرے نزدیک تو وہ ذہن کو ادھر ادھر بھٹکنے کا موقع فراہم کرتے تھے۔ عربی اور فارسی الفاظ کا تلفظ صدیوں کے بعد ہندوستان میں بولے جانے کے بعد بدلا ہے یہ ایک دن کی بات نہیں۔


ایک امریکن امیر آکسفورڈ گیا۔ وہاں کی پرانی عمارتیں اسے بالکل پسند نہ آئیں مگر وہاں کے سبزہ زاروں پر فریفتہ ہو گیا۔ پوچھا یہ لان کیسے اور کتنے میں تیار ہوگا۔ مالی بلایا گیا۔ اس نے کہا گھاس لگانے میں خرچہ تو بہت کم آئے گا مگر پانچ سو سال تک رولر چلانا پڑے گا۔ پانچ سو سال بعد جعفر جافر ہو جائے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں مگر بیک وقت میں اس تبدیلی کے لیے قطعاً تیار نہیں ہوں۔ آج کل دیہاتوں کی طرف میلان کا بڑا چرچا ہے مگر یہ سب سیاستدانوں کا ڈھکوسلا ہے۔ تہذیب دیہات سے شہر کی طرف جارہی ہے۔ اردو شہری تہذیب کی پروردہ ہے (اس کے یہ معنی نہ سمجھے جائیں کہ دھرتی کا جس اور دیہات کارس نہیں رکھتی) اس کی شہریت اور تہذیب کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ یہ خواص پرستی سے بالکل الگ چیز ہے۔ اردو سیکھنے والوں کو سب سے زیادہ مشکل ان عربی الفاظ کے لکھنے میں پیش آتی ہے جو اردو زبان میں آ جانے اور اردو کے الفاظ ہو جانے کے باوجود عربی قاعدے سے لکھے جاتے ہیں۔


میرے نزدیک املانامہ کی یہ سفارش کہ ایسے تمام لفظ جو الف مقصورہ سے لکھے جاتے ہیں، اردو میں معمولی الف سے لکھے جائیں، ضرور مان لینی چاہیے اور اعلا، ادنیٰ، تقوا، فتویٰ، مصفا، معلّا، عیسا، موسا سب الف سے لکھنے چاہئیں۔ جب ہم رحمان، ابراہیم، یاسین، اسماعیل الف سے لکھتے ہیں تو مصطفا، مرتضا، مجتبا، الف سے لکھنے میں پس و پیش کیوں۔ عربی اور ترکی کے کچھ لفظوں کے آخر میں اگر چہ الف ہے مگر غلطی سے انھیں ہ سے لکھا جاتا ہے۔ املانامہ میں انھیں بھی الف سے لکھنے کی سفارش کی گئی ہے۔ مثلاً شوربا، قورما، ناشتا، ملغوبا، لیکن یہ سفارش عجیب ہے کہ علی الخصوص، علی العموم، علی الحساب کو عربی کے اجزا مان کر عربی کے طریقہ کتابت کے مطابق لکھا جائے، حالاں کی ان کو علل خصوص، علل حساب، علل عموم آسانی سے لکھا جا سکتا ہے اور انھیں اس طرح لکھنے کے باوجود صحیح طور سے پڑھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔


ایک عجیب بات املانامہ میں یہ لکھی گئی ہے کہ لہٰذا کی رائج صورج میں تبدیلی کی ضرورت نہیں کیوں کہ یہ لفظ اس املا کے ساتھ چلن میں آ گیا ہے۔ اس منطق کے مطابق تو ہمیں رسمِ خط میں کسی اصلاح کا خیال بھی نہیں کرنا چاہیے۔ کیوں کہ چلن میں ایسی بہت سی دشواریاں ہیں جن کا پڑھے لکھے لوگوں کو احساس نہیں ہے کیوں کہ وہ اس مرحلے سے مدتوں پہلے گذر چکے مگر جو نوسیکھا ہے اور جو اسے سکھانے والا ہے، اسے تو اس کا پورا احساس ہے۔ اگر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اردو سکھانا ہے اور اس کام کو زیادہ سے زیادہ آسان اور قابلِ قبول بنانا ہے تو چند اصلاحیں ناگزیر ہیں۔


اردو کو صرف غیروں کی طرف سے نہیں اپنوں کی طرف سے بھی خطرہ ہے۔ جو لوگ ایک ہند آریائی زبان کو عربی یا فارسی کا ضمیمہ سمجھتے ہیں یا جو کسی خوف یا احساسِ کمتری کی بنا پر آئینِ نو سے ڈرتے اور طرزِ کہن پر اڑتے ہیں، یا وہ اردو کے بڑھنے، پھیلنے اور مقبول ہونے سے روکتے ہیں وہ اردو کے بہی خواہ نہیں۔ زبان کی کوئی شریعت نہیں ہوتی۔ یہ برابر بدلتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ تغیر کے باوجود اس میں تسلسل بھی رہے۔


بالکل کو بل کل اور بلکہ کو بل کہ تو کچھ لوگ لکھنے لگے ہیں مگر فی الحال اور فی الفور اس طرح یعنی فل حال اور فل فور لکھنے سے گریز کیوں۔ املانامہ میں کہا گیا ہے کہ فوراً کو فورن لکھنے کی سفارش نہیں کی جا سکتی کیوں کہ تنوین اردو املا کا حصہ بن چکی ہے۔ میرے نزدیک تنوین کو بالکل اڑا دینا چاہیے۔ ہم بشیرن، نذیرن، وحیدن سے واقف ہیں۔ اکبر کی ان نصیبن سے بھی (جوہر پھر کر آیا ہی رہیں۔ اگر چہ اسکول میں برسوں پڑھا کیں) تو نسبتاً اور عادتاً کو بھی حرف ن سے کیوں نہیں لکھ سکتے۔ املانامہ کی یہ سفارش مناسب ہے کہ جو حرف ط اور ت دونوں سے لکھے جاتے ہیں وہ حرف ت سے لکھے جائیں۔ تو تا کو لوگ غلطی سے ط سے لکھتے ہیں جب کہ لفظ طوطی سے مختلف ہے اور اسے ت سے لکھنا چاہیے۔


مجھے اب تک یاد ہے کہ بچپن میں جب میں نے نول کشور کی چھپی ہوئی فسانۂ عجائب پڑھی تو اس میں لکھا تھا، ’’جانا جان عالم کا بازار اور لانا وہاں سے ایک توتا۔‘‘ لیکن اردو کے بہت سے قاعدوں میں میں نے ط سے طوطا لکھا ہوا دیکھا ہے۔ اس پر ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ ہمارے ایک کرم فرما کی نسبت بچپن میں ہی ان کے خاندان کی ایک لڑکی سے ہو گئی تھی۔ حضرت پڑھ لکھ کر ایک اچھی نوکری پر فائز ہو گئے۔ ہر طرف سے اونچے اونچے خاندانوں کے پیام آنے لگے۔ شریف آدمی تھے، وعدے کا پاس تھا، انھوں نے صرف یہ شرط رکھی کہ لڑکی کو جونا خواندہ تھی، معمولی اردو، پڑھا دی جائے۔ چنانچہ یہ ہو گیا اور شادی بھی ہو گئی۔ میں اس شادی میں شریک تھا۔ بعد میں شوہر نے بیوی کا امتحان لیا اور توتا لکھوایا تو اس نے ت سے لکھا۔ بس اس پر یہ حضرت اتنے برہم ہوئے کہ بیوی کو طلاق دے دی۔ انھیں خیال ہوا کہ انھیں دھوکہ دیا گیا اور ماں باپ نے لڑکی کو پڑھانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ حالاں کہ غریب نے تو ت سے صحیح لکھا تھا۔


اس طرح گڑ کی گجک کو کچھ لوگ گزک لکھتے ہیں جو شراب کا مزہ بدلنے لیے نمکین کے طور پر کھائی جاتی ہے۔ ج کے بجائے ز کا استعمال یا ہندی الفاظ کے بجائے فارسی بگھارنا ایک خواص پرست ذہنیت کا غماز ہے جس نے ایڈیٹر کے بجائے مدیر مسؤول اور رئیس التحریر جیسے گراں ڈیل الفاظ لکھنے میں اپنی شان سمجھی۔ الہلال، نگار اور زمیندار کی تحریروں نے اور ان کے ایڈیٹروں کے اسلوب نے اردو کو مالا مال کیا ہے تو اس نقطۂ نظر سے اس کی عام مقبولیت کو کم بھی کیا ہے۔


آپ کو یہ یاد دلانے کی اجازت چاہتا ہوں جب ۱۸۹۸ء میں بہار میں اردو کے علاوہ ہندی کو بھی دیوناگری رسمِ خط سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا تو دلیل یہ دی گئی کہ اردو رسمِ خط کے پڑھنے میں عوام کو اتنی دشواری ہوئی ہے کہ دیوناگری رسمِ خط کی اجازت دینا ضروری ہو گیا ہے۔ انٹونی میکڈرنل نے کہیں یہ لکھا ہے کہ انھیں بہار میں جو ایڈریس پیش کیا گیا تھا اس کی زبان مشکل تھی اور وہ باوجود اردو جاننے کے اسے سمجھنے سے قاصر تھے۔


میرے نزدیک دشواری اصلاً عربی فارسی الفاظ کی وجہ سے اتنی نہیں تھی جتنی انھیں عربی قاعدے سے لکھنے کی وجہ سے تھی۔ اردو کا رشتہ اب بھی روٹی روزی سے جڑا ہوا نہیں ہے۔ ہاں تہذیب سے جڑا ہوا ضرور ہے۔ عربی، فارسی الفاظ کا سرمایہ جو اردو میں آنا تھا آ چکا ہے، اب اس میں اضافے کا امکان نہیں۔ ہاں ہندی اور انگریزی اور علاقائی زبانوں کے الفاظ کا سرمایہ ضرور بڑھے گا۔ اس سے سراسیمہ یا چراغ پا ہونے کے بجائے اس کا خیر مقدم کرنے چاہیے۔ یہ بات میں کسی خوف یا مصلحت کی بنا پر نہیں کہہ رہا ہوں۔ سکڑنے اور سمٹنے میں قوت ہے۔ بڑھنے اور پھیلنے، اثر قبول کرنے اور اثر ڈالنے میں زندگی۔ اردو زبان کی تاریخ تو یہی کہتی ہے۔


نون اور نون غُنّہ کے بارے میں املانامہ کی سفارش یہ ہے کہ ڈاکٹر عبد الستار صدیقی کے ارشاد کے مطابق عربی فارسی الفاظ میں املا میں اصل کی پیروی کی جائے مگر دیسی لفظوں میں میم لکھا جائے یعنی گنبد تو ن سے لکھا جائے مگر امید (آم) م سے لکھا جائے۔ یہاں بھی یکسانیت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اگر میم کی آواز نکلتی ہے تو لفظ میم سے ضرور لکھنا چاہیے اور عربی یا ہندی لفظ میں فرق نہیں کرنا چاہیے۔ یہاں یہ مناسب ہے کہ نون غنہ کو لفظ کے بیچ میں الٹے قوس کی طرح ظاہر کیا جائے۔


اردو میں واؤ کی مخلوط آواز کے لیے واؤ معدولہ استعمال ہوتا ہے۔ اردو سیکھنے والوں کو اس وجہ سے بہت پریشانی ہوتی ہے۔ غالب خورشید کو خرشید لکھتے تھے۔ اس اصول کی بِنا پر خود، خوش وغیرہ کو واؤ کے بغیر لکھنا ہر طرح مناسب ہے۔ ہاں افسانہ خواں، خوار، خواہ میں چوں کہ واؤ کی واضح ہے اس لیے انھیں واؤ سے لکھنا چاہیے۔


ہمزہ کے سلسلے میں یہ مناسب ہے کہ جس لفظ میں دو مصوتے (حرف علت یا حرکات) ساتھ ساتھ آئیں اور اپنی اپنی پوری آوازیں تو ہمزہ لکھا جائے۔ مثلاً کوئی، لکھنؤ۔ اگر عربی کے الفاظ کے آخر میں اصلاً ہمزہ ہے مگر اردو میں الف سے بولے جاتے ہیں تو ان کے آخر میں ہمزہ کیوں ہو۔ طلباء، شعراء، علماء کو طلبا، شعرا، علما لکھا بھی جانے لگا ہے۔ مگر املانامہ میں یہ جو کہا گیا ہے کہ ترکیب میں ہمزہ لکھا جائے اس کی میرے نزدیک ضرورت نہیں۔ ہمزہ یا ئے کے استعمال کے سلسلے میں اگر الف کی آواز نکلتی ہو تو ہمزہ استعمال کرنا چاہیے ورنہ نہیں۔ چنانچہ آزمایش، نمایش، ستایش، آیندہ، نمایندہ میں آوازی کی نہیں الف کی نکلتی ہے۔ اس لیے انھیں ہمزہ سے لکھنے میں کیا حرج ہے۔ مضاف کے آخر میں اگر یائے مختفی ہے تو ہمزہ استعمال کرنا چاہیے جیسے خانۂ خدا، لیکن اگر مضاف کے آخر میں الف یا واؤ ہے تو اضافت ے سے ظاہر کی جائے۔ مقصد یہ ہے کہ زبان سے زیادہ صوتی پہلو ملحوظ رہے۔


اب میں ایک ایسی بات کی طرف آتا ہوں جس کا احساس سب سے زیادہ ڈاکٹر عبدالستار صدیقی دلوی کو تھا۔ حال میں یہ روش تو دیکھی گئی ہے کہ مرکب الفاظ کے خواہ فارسی کے ہوں خواہ ہندی کے، اجزا الگ الگ لکھے جائیں چنانچہ احسان مند میں احسان اور مند الگ لکھا جائے۔ سمینار، سے می نار لکھا جانے لگا ہے اور یونیورسٹی کو بھی اسی طرح لیکن دستخط، تنخواہ، باغباں، گلزار کو اب بھی ملا کر لکھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر صدیقی تو اس کے بھی حامی تھے کہ انگریزی کی طرح ہر حرف علیٰحدہ علیحدہ لکھا جائے۔ میرے نزدیک اس کی ضرورت نہیں۔ ہاں یہ ہونا چاہیے کہ ہر رکن (SYLLABLE) کو الگ الگ لکھا جائے۔ مثلاً امتحان کو ام تحان، استاد کو اس تاد، کھنکھجورے کو کھن کھجورا۔ آخر تقطیع میں ہم الفاظ کو وزن کے مطابق قطع کرتے ہیں۔ اس طرح عام طور پر لکھنے میں بھی کر سکتے ہیں۔


میل۔ مَیل کی وجہ سے یعنی یائے معروف، یائے مجہول، اور یائے ماقبل مفتوح کے لیے املا نامے میں سفارش ہے کہ یائے معروف کو لفظوں کے نیچے ایک کھڑی لکیر سے ظاہر کیا جائے۔ یائے مجہول میں کسی علامت کی ضرورت نہیں۔ یائے ماقبل مفتوح میں اوپر زبر ہو۔ لیکن غالب اور شبلی اور دوسرے لوگوں نے آدھی ی یہاں استعمال کی ہے اور یہ مشکل میرے نزدیک سے، ہے، کے ظاہر کرنے کے لیے زیادہ مناسب ہے۔ تشدید میں کفایت ہے اور اس کے سیکھنے میں کوئی وقت نہیں۔ اس لیے اسے باقی رکھنا چاہیے۔


اعداد کے سلسلے میں یہ عرض کرنا ہے کہ اگر ہم موجودہ اعداد کے بجائے عربی یا بین الاقوامی اعداد اختیار کریں تو زیادہ مناسب ہوگا۔ اس طرح ہم صفر کے لیے نقطے سے بچ جائیں گے جو چھپائی میں غائب ہو جاتا ہے۔ دستور میں ہندی کے لیے بھی تو بین الاقوامی اعداد کی ہدایت ہے۔


اوقاف کے سلسلے میں عرض یہ ہے کہ اردو میں سکتے کے لیے الٹے کاما کا رواج ہو گیا ہے۔ سیمی کولن کا استعمال تعداد میں بہت کم دیکھا گیا ہے لیکن بوقت ضرورت ان کا استعمال ضرور ہوتا ہے۔ سوالیہ اور ندائیہ یا فجائیہ بھی۔ بریکٹ میں صرف ایک بریکٹ ہی کام میں لایا جاتا ہے۔ واوین کا استعمال عام ہے۔ اب عبارت پر زور دینے کے لیے اس کے اوپر نہیں بلکہ نیچے لکیر ہوتی ہے، اور یہ مناسب ہوتی ہے۔ اتنے اوقاف سے اردو میں کام چل جاتا ہے، اور یہی کچھ سیکھنا چاہیے۔ اردو آبادی کی سب سے بڑی تعداد ہندی ریاستوں میں ہے اور انھیں ریاستوں میں اردو کے حقوق کی پاسداری اور دستور کی ہدایات کا لحاظ سب سے کم ملتا ہے۔ غیر ہندی ریاستوں میں اردو پڑھنے اور لکھنے میں دفتری رکاوٹیں ہوں تو ہوں، حکومت کی طرف سے کوئی نمایاں بے پروائی یا بے انصافی نہیں ہے۔


ہم اردو دنیا کو اب بھی یوپی اور بہار اور دہلی تک محدود سمجھتے ہیں۔ لیکن گجرات، مہاراشٹر، آندھرا، بنگال، کرناٹک، کشمیر میں اردو کا خاصا چلن ہے اور اردو کی تعلیم کا بڑی حد تک تسلی بخش انتظام ہے۔ علاقائی زبانوں کی ترقی کے ساتھ ان ریاستوں میں اردو کو بھی فروغ ہو رہا ہے اور ان ریاستوں میں ذولسانی شاعر اور ادیب ابھر رہے ہیں۔ میں اس میلان کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ یوپی اور بہار کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ جب تک اردو کی تعلیم اور چلن پر پابندیاں نہ ہوں، ہندی ترقی نہ کرے گی۔ سی۔ بی راؤ نے تو میرے ایک مضمون کے جواب میں صاف کہا تھا کہ ایک سنگھاسن پر دو راجہ نہیں بیٹھ سکتے۔ میں نے جواب دیا تھا کہ جب ایورسٹ پر بھی ایک سے زیادہ کوہ پیما کھڑا ہو سکتا ہے اور ہیلیری (HELARY) اور تین سنگھ کی تیاری تھی تو ایک ریاست میں ایک سے زیادہ زبان سرکاری مقاصد کے لیے کیوں نہیں استعمال کی جا سکتی۔


اردو اور ہندی کا علاقہ ایک ہی ہے۔ آج بھی میرٹھ اور روہیل کھنڈ میں عوام کی زبان بعض آوازوں کو چھوڑ کر اردو کے روپ کے مطابق ہے۔ میں نے اس کا ذاتی تجزیہ روہیل کھنڈ ضلع کے دیہات میں کیا ہے اور وہاں بارہ ما سے سنے ہیں۔ لیکن ہندی تعلیم اور سرکاری ہندی کی ترویج کی وجہ سے ایک مصنوعی ہندی ابھر رہی ہے۔ ریڈیو اور ٹی وی کی خبروں کی زبان روز بروز ہندی کے عام فہم الفاظ کو ترک کر کے سنسکرت کے بھاری بھرکم الفاظ کا استعمال کرتی ہے۔ اور اس کا اثر رفتہ رفتہ سیریل یا فیچر یا فلم کی زبان پر بھی پڑ رہا ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی میں بچوں کے علاوہ ان پڑھ بالغوں کو پڑھانے کے لیے خاص انتظام کیا گیا ہے۔ خط و کتابت کے ذریعے بھی علوم سکھانے کی تجویز ہے۔ اردو دوستوں کو اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ خاص طور سے خط و کتابت کے ذریعے اردو سکھانے کی مہم یونیورسٹیوں کے اردو شعبوں اور اردو کے اداروں کو شروع کرنی چاہیے۔ رسمِ خط میں ضروری اصلاحوں میں دیر نہ کرنی چاہیے۔ شاہا دو رخ بدہ ودل آرام دہ۔ کوئی مہنگا سودا نہیں۔


اردو خواص کی زبان ہو کر یا ایک مذہبی فرقے کی زبان ہو کر پھل پھول نہ سکے گی، ترقی نہ کر سکےگی، سکڑ کر، سمٹ کر رہ جائےگی۔ ہمیں زبان کی ہندوستانیت اور ادب کی ہندوستانیت کو اور نمایاں کرنے کی ضرورت ہے۔ بول چال کی زبان میں زیادہ آزادی دی جا سکتی ہے۔ مگر تحریر کی زبان میں معیار پر اصرار کرنا ہوگا، ہاں یہ معیار پوری تاریخ اور جدید حالات اور ضروریات کے مطابق ہوگا۔ میں نہ مرعوب ہوں اور نہ مایوس ہوں، ملول ضرور ہوں۔ ہم وقت کے تقاضے اور حالات کے چیلنج کو سمجھ رہے ہیں۔ اقبال نے زمانے کی ترجمانی کرنے میں غلط نہیں کہا ہے۔


نہ تھا اگر تو شریکِ محفل قصور تیرا تھا یا کہ میرا
مرا طریقہ نہیں کہ رکھ لوں کسی کی خاطر مئے شبانہ


ان معروضات پر غور کیجیے۔ شاید آپ کے غور و خوض سے ہماری زبان کے مستقبل کے لیے کچھ کام کی باتیں نکلیں۔