آئی ایم ایف پاکستان جیسے غریب ممالک میں کیسے کھیلتا ہے؟
3 جولائی 2019 کو آئی ایم ایف کی ایک پریس ریلیز منظر عام پر آئی۔ اس پریس ریلیز میں درج تھا کہ آئی ایم ایف پاکستان کو تقریباً چھے ارب ڈالر انتالیس ماہ کے اندر دینے جا رہا ہے، جو کہ توسیع شدہ سہولت یعنی extended fund facility کے تحت ہوگا۔ اس چھے ارب ڈالر میں سے ایک ارب ڈالر فوری جاری کیے جا رہے ہیں جبکہ باقی ماندہ وقتاً فوقتاً قرض پر عائد آئی ایم ایف شرائط اور حکومت پاکستان کے وعدوں پر عمل درآمد پر جائزے کے بعد جاری کیے جائیں گے۔ نیز اس پریس ریلیز میں مزید درج تھا کہ قرض کی یہ توسیعی سہولت پاکستان کو معاشی خطرات سے نمٹنے، مستحکم اور متوازن بڑھوتری اور قرضوں میں کمی لانے میں مدد گار ثابت ہوگی۔
اس پریس ریلیز کو چونتیس ماہ گزر چکے ہیں۔ پاکستان چھے ارب ڈالر میں سے تین ارب ڈالر لے چکا ہے، چھے ارب ڈالر کے قرض کو آٹھ ارب تک بڑھوا چکا ہے اور 1.9 ارب ڈالر کے لیے آئی ایم ایف کے جائزے کا منتظر ہےجس کے لیے اٹھارہ مئی کو ٹیم سے ملاقات ہو گی۔
کیا یہ ٹیم پاکستان کو 1.9 ارب ڈالر دینے پر آمادہ ہوگی؟ یہ وہ سوال ہے جو آج کل میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔ معاشی ماہرین خطرے کی گھنٹیاں بلکہ نقارے بجارہے ہیں کہ پاکستان شدید معاشی مشکلات میں گھر گیا ہے۔ اس کے خزانے میں اس وقت دس ارب ڈالر کے نزدیک ریزرو ہیں جو کہ صرف دو ماہ کے لیے کافی ہوں گے۔ اس سال کا بجٹ خسارہ بھی پچاس کھرب روپے سے بڑھ جائے گا۔ ایسے میں آئی ایم ایف کا پاکستان کے ساتھ تعاون بہت ضروری ہے۔ کیونکہ آئی ایم ایف تعاون کرتا ہے تو دیگر ادارے اور ممالک پاکستان کے ساتھ تعاون کرنے پر آمادہ ہوں گے۔
لیکن آئی ایم ایف اس وقت ایک پھڈا ڈال کر بیٹھا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نے جو پٹرولیم مصنوعات اور بجلی پر سبسڈی دی ہوئی ہے وہ ختم کرے۔ اس کے علاوہ اس نے ایمنسٹی سکیم پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے جو کہ پچھلی حکومت نے دی ہوئی تھی۔
آئی ایم ایف حکومت پاکستان کو سبسڈی ختم کرنے کے لیے دو بنیادوں پرمجبور کر رہا ہے۔ ایک تو اس لیے کہ حکومت کے خزانے میں پہلے ہی پیسے تھوڑے ہیں۔ اب اگر وہ سبسڈیز دے گی تو پیسے مزید کم ہوتے جائیں گے اور پاکستان آئی ایم ایف کا قرضہ واپس لوٹانے کے قابل نہیں رہے گا۔ یہ بالکل ہی ایک ساہوکارانہ سوچ ہے اور کچھ نہیں۔ دوسرا یہ کہ اس قرض کے پروگرام کو شروع کرتے وقت حکومت پاکستان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اخراجات کم کرے گی اور ٹیکس بڑھائے گی۔ یہ اقدامات اس وعدے کے منافی ہیں۔ لیکن دوسری طرف اگر حکومت سبسڈی ہٹاتی ہے تو پیٹرول اور بجلی کی قیمتیں ایک دم چڑھ جائیں گی۔ مہنگائی سے ستائے عوام چیخ اٹھے گے۔ معاشی بد اعمالیوں کا جو سلسلہ پچھلی حکومت نے شروع کیا تھا اس کا سارا نزلہ اس حکومت پر آ گرے گا۔ اب کے جب انتخابات سر پر ہیں تو یہ سیاسی نقصان تو کسی طرح بھی اٹھایا نہیں جا سکتا۔ خاص طور پر جب مخالف سازش کا بیانیہ بنا کر عوام کی ہمدردیاں سمیٹ رہا ہو۔
حکومت اس وقت ان مسائل کو لے کر شدید پریشان ہے۔ لیکن میرا سوال ان سیاسی مشکلات سے ہٹ کر ہے۔
آئی ایم ایف قرضہ کسی عوامی فلاح، ترقیاتی پروجیکٹ یاسرمایہ کاری کے لیے نہیں دیتا۔ یہ قرضہ صرف حکومتوں کو کرنٹ اکاؤنٹ خسارے وغیرہ کو کم کرنے کے لیے دیتا ہے۔ عموماً یہ خسارہ اس لیے ہو رہا ہوتا ہے کہ حکومتی پالیسیاں ٹھیک نہیں ہوتیں یا برآمدات سے زائد درآمدات ہو رہی ہوتی ہیں۔ اس خسارے میں عام غریب عوام کا کسی طرح بھی براہ راست ہاتھ نہیں ہوتا۔ پھر کیوں آئی ایم ایف حکومتی پالیسیاں ٹھیک کروانے کی بجائے مزید ٹیکس لگانے، عوام پر خرچ کرنے کو روکنے اور کرنسی کی قیمت گرانے جیسی شرائط رکھتا ہے؟ اس کی اس قسم کی شرائط کی وجہ سے ایک طرف تو کرنسی کی قیمت گرنے کی وجہ سے مہنگائی ہوتی ہے اور دوسری طرف عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بھی بڑھ جاتا ہے۔ متبادل کے طور پر کسی قسم کی سہولت بھی عوام کو نہیں ملتی۔ یہ تو ظلم ہے۔
آپ اپنے ملک کی ہی مثال لے لیں۔ 2019 میں پاکستان آئی ایم ایف پروگرام میں بائیسویں دفعہ گیا تھا۔ اب تک روپیہ اپنی قدر کھوتا کھوتا کہاں پر پہنچ گیا ہے۔ بجلی اور پیٹرول کی قیمتیں کتنی بار نہیں بڑھائی گئیں؟ کونسا بجٹ تھا جس میں نئے ٹیکس نہ لگائے گئے ہوں؟
آہ کے یہ سب باتیں ہر معیشت دان کو معلوم ہیں۔ لیکن پاکستان جیسے ممالک کی معیشت میں خرابیاں ہی ایسی ہوتی ہیں کہ آئی ایم ایف جیسے سفاک ساہوکاروں کے منہ بار بار لگنا پڑتا ہے۔ سیاسی حکومتیں ہر وقت عدم استحکام کا شکار رہتی ہیں، لہٰذا معیشت کی جڑ میں موجود خرابیوں کی طرف دھیان کر ہی نہیں پاتیں۔ یوں نہ وہ خود چین سے حکومت کر پاتی ہیں اور نہ عوام چین سے جی پاتے ہیں۔ اور اس سب صورتحال میں فائدہ صرف آئی ایم ایف جیسے ادارے اٹھا رہے ہوتے ہیں۔