آئی ایم سے ملنے والا قرضہ کہاں استعمال ہوگا؟
ن لیگ اور اتحادی جماعتوں کی حکومت اور پاکستان عوام دونوں سے ناک کی لکیریں نکلوانے کے بعد بالآخر آئی ایم ایف نے اپنا قرض پروگرام بحال کرتے ہوئے پاکستان کو ایک اعشاریہ ایک سات 1.17 ارب ڈالر قرض کی قسط کی منظوری دے دی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ قرض پاکستان کی اجڑتی اور روز بروز دگرگوں ہوتی معیشت کو سہارا دے سکے گا۔ کیا یہ قرض ملک میں آنے والے موجودہ سیلاب زدگان کی بحالی سمیت کسی بڑے ڈویلپمنٹ پروگرام پر لگ سکے گا یا پھر یہ سارا قرض پچھلے قرضوں پر سود کی ادائیگی میں ہی صرف ہوجائے گا۔
مفتاح اسماعیل آئی ایم ایف سے قرض کے اس اجرا کو اپنی یا شہباز حکومت کی بڑی فتح سے تعبیر کررہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے پی ٹی آئی کی پنجاب اور کے پی کے حکومتوں کے وفاقی حکومت کو لکھے گئے خطوط اور شوکت ترین کی لیک آڈیو کے باوجود آئی ایم سے قرض کی منظوری کو بہرحال مفتاح اسماعیل، شہباز شریف اور موجود حکومتی ٹیم کی مشترکہ کامیابی ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ملک کو اس کا کیا فائدہ نقصان ہوگا، یہ تو آنے والے دن ہی بتاسکیں گے۔
مفتاح اسماعیل کا مزید کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے پروگرام کو ایک سال تک بڑھانے اور فنڈز میں 1 بلین ڈالر کا اضافہ کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ ان کے بیان کے مطابق یہ رقم ہمارے لیے لائف لائن ثابت ہوگی اور اگر یہ رقم پاکستان کو نہ ملتی تو ملک کو ڈیفالٹ کرنے سے کوئی نہیں بچا سکتا تھا۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے اور اس وقت کچھ عرصہ کے لیے ہی سہی،لیکن پاکستان ڈیفالٹ یا دیوالیہ ہونے سے بچ گیا ہے۔ دوسری طرف اس قرض کی اہمیت یہ بھی ہے کہ اس سے ملک کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے میں مدد ملے گی جس کی صورت حال اس وقت بہت بری ہے اور ملک کے پاس صرف ایک ماہ کی برآمدات کے لیے رقم باقی رہ گئی تھی۔
اس سال اپریل میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے شہباز شریف اور اتحادی حکومت کا سب سے بڑا چیلنج آئی ایم ایف پروگرام کو بحال کروانا تھا کیونکہ ہماری موجودہ معاشی ٹیم کے پاس ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کا محض ایک ہی طریقہ تھا، اور وہ یہ کی گزشتہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لیا جائے۔ قرض لیا جاتا رہے اور اس بات کی امید رکھی جائے کہ ایک دن یہ قرض پاکستان کی ڈوبتی معیشت کو بچالیں گے۔ غالب نے شاید اسی منظرنامے پر کہا تھا:
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
اس فاقہ مستی نے رنگ تو کیا لانا تھا، پاکستان عوام کی جیبوں پر ایسا ڈاکہ ڈالا کہ ملک سے مڈل کلاس یا لوئر مڈل کلاس غائب ہی ہو کر رہ گئی،ہزاروں لاکھوں کاروں والے موٹر سائیکلوں پر آگئے، جو موٹر سائیکل چلا سکتے تھے وہ اس میں بچت کے طریقے سوچنے لگے۔ ملک میں تیل اور بجلی کیا مہنگی ہوئی ایسا لگتا ہے کہ ملک میں حشر برپا ہوگیا۔ افراط زر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ روپے کو ایسی نظر لگی کہ لڑھکتے لڑھکتے اپنی سابقہ ویلیو سے نصف رہ گیا ہے ۔ شہباز حکومت کا کہنا ہے کہ یہ سب فیصلے ضروری تھے اور اس لیے ضروری تھے کہ یہ آئی ایم ایف کے آرڈرز تھے۔
اب جبکہ قرض کی قسط جاری ہوگئی ہے تو دعوے تو یہ کیے جارہے ہیں کہ اس سے پاکستان کے لیے دیگر قرضوں اور امداد کے راستے کھل جائیں گے۔ اب ملک کو بین الاقوامی حمایت بھی ملے گی اور مدد بھی۔
موجودہ حکومت اور اس کے معاشی ماہرین کے موقف کے مطابق شاید یہ درست بھی ہو لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ قرض کی اس قسط کے ملنے سے کوئی بہت بڑی تبدیلی ملکی معیشت میں نہیں آئے گی۔ ہمارے حالات ایک دن میں خراب نہیں ہوئے۔ ہماری معاشی بدحالی دراصل گزشتہ دو سے تین دہائیوں کے غلط فیصلوں، ناقص انتظامی مشینری، دنیا کی مہنگی ترین بیوروکریسی، بڑے پیمانے پر کرپشن اور بدعنوانی کا نتیجہ ہے۔ اور یہ سب کچھ جوں کا توں موجود ہے، نہ صرف موجود ہے بلکہ ہر آنے والے دن میں ان خرابیوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ بیڈ گورننس یوں تو پورے جنوبی ایشیا کا ہی مسئلہ سمجھا جاتاہے لیکن ہم اب اس فن میں یکتا ہوتے جارہے ہیں اور ہمارے مقابلے میں دور دور تک کوئی نہیں۔
کیا آئی ایم ایف کی ایک قسط ہمارے ان مسائل کو حل کرسکتی ہے یا بالفاظ دیگر جب تک ہم ان مسائل اور خرابیوں سے چھٹکارا نہیں پاتے ، ایک قسط کیا دس قسطیں بھی مل جائیں ملکی معیشت نہیں سنبھل سکتی۔ بین الاقوامی مہاجنوں کی طرف سے ملنے والی اس رقم کا ایک بڑا حصہ تو گزشتہ قرضوں اور ان پر ادا کیے جانے والے سود کی شکل میں واپس چلا جاتا ہے اور باقی بچی کچھی رقم ہماری بیڈ گورننس، اشرافیہ کے تعیشات اور بیوروکریسی پر اٹھنے والے لامتناہی اخراجات کی نذر ہوجاتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام پر نت نئے ٹیکس لگا کر ان خساروں کو پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن وہ پھر بھی کم نہیں ہوتے۔