سال 2022-23 کا قومی بجٹ: آئی ایم ایف تو پھر بھی خوش نہ ہوا
بجٹ پیش کرنے کے دو دن بعد ہی وزیر خزانہ صاحب نے عوام کو پھر سے ڈرانا شروع کردیا ہے ۔ اپنی تازہ ترین پریس کانفرنس میں ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران اور اب بجٹ میں حکومت کی طرف سے آئی ایم کی خوش نودی کے لیے اٹھائے گئے تمام تر اقدامات کے باوجود آئی ایم ایف کی طرف سے تشویش اور تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے لہٰذا ہوسکتا ہے کہ کئی مزید اقدامات ایسے اٹھانے پڑیں جن کاحالیہ بجٹ میں کوئی ذکر نہیں ہے۔
حال ہی میں پیش کیے جانے والے بجٹ کے ذریعےاتحادی حکومت کا مقصد (ان کے اپنے دعووں کے مطابق) دو اہداف حاصل کرنا تھا:
ا) معیشت کو بچانے کے لیے مالیاتی استحکام، اور
ب) آئی ایم ایف کے فنڈنگ پروگرام کی بحالی۔
عمران خان کی حکومت کو مہنگائی اور نااہلی کے الزامات لگا کر نکال باہر کرنے کے بعد موجودہ کئی جماعتی اتحاد کے تحت بننے والی حکومت نے اگرچہ یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کی بحالی کے لیے اس کی شرائط تسلیم کی جارہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان شرائط کی زد عام آدمی پر پڑنے سے روکنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
بجٹ دو دن قبل پیش کیا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس بجٹ کے اثرات بجٹ سے پہلے ہی عام آدمی پر پڑنا شروع ہوگئے۔ وہ اس طرح کہ بجٹ لانے سے پہلے ہی دو مرتبہ تیل کی قیمتوں میں 60 روپے فی لٹر تک کا اضافہ کردیا گیا جس کی ذمہ داری عمران حکومت ، روس یوکرائن جنگ اور عالمی مہنگائی پر ڈال دی گئی۔ اسی طرح آئی ایم ایف کے ہی مطالبے پر بجلی کے نرخوں میں 7 روپے فی یونٹ (بلکہ بعض صورتوں میں 10 روپے فی یونٹ) تک کا اضافہ کیا گیا۔
اب جو بجٹ پیش کیا گیا ہے تو اس میں بھی ایسے بہت سے اقدامات کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے جن کے ذریعے آئی ایم ایف سے مزید قرض کے حصول یا بیل آؤٹ پیکج کے حصول کی کوشش کی جائے گی۔ بجٹ میں اگر کچھ رعایات دی گئیں ہیں تو وہ بھی پہلے آئی ایم ایف کے گوش گزار کی گئی تھیں، اس کی منظوری یا عدم اعتراض کے بعد ہی ان اقدامات کو بجٹ کا حصہ بنایا گیا ، جیسے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پندرہ فیصد اور پنشن میں اضافے کے اقدامات ہیں۔
گویا موجودہ اتحادی حکوت اپنے آنے کے بعد سے ایک ہی کام میں لگی ہوئی ہے ، اور وہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح آئی ایم ایف کو راضی کرکے اس سے قرض کی نئی قسط حاصل کرلی جائے۔ اگرچہ موجودہ حکومت کےکارپردازان کا یہ بھی کہنا ہےکہ موجودہ معاشی صورت حال سے نکلنے کے لیے کفایت شعاری کو بھی اختیار کیا جاے گا لیکن کفایت شعاری کے جو اعلانات کیے گئے ہیں، وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہیں اور ان سے شاید کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں۔ ہم دنیا کی مہنگی ترین بیوروکریسی اور حکومتی اخراجات کرنے والے ممالک میں سر فہرست ہیں لیکن عجیب بات ہے کہ آئی ایم ایف یا اس کے نمائندے ان اخراجات کو کم کرنے کے لیے حکومت پر کوئی دباؤ ڈالتے ہیں اور نہ ہی حکومت چلانے والے خود اس طرف آتے ہیں ، بات کی جاتی ہے تومحض یہ کہ بجلی، تیل اور گیس مہنگی کرو، سبسڈیز بند کرو وغیرہ وغیرہ ۔
اب بجٹ آنے کے دو دن بعد ہی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل صاحب نے پہلے سے ڈرے اور سہمے ہوئے عوام کو پھر سے ڈرانا شروع کردیا ہے ، وہ کہتےہیں کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے حالیہ بجٹ کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے، اور حکومت آئی ایم ایف کی تشویش کودور کرنے کے لیے بجٹ میں مزید تبدیلیاں کرسکتی ہے۔ گویا عام آدمی کو مزید مہنگائی او رمزید ٹیکسز کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
مفتاح اسماعیل صاحب کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے حکومت پر ایندھن کی سبسڈی، بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور مزید براہ راست ٹیکس بڑھانے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے ۔ یعنی اگلے چند دنوں میں پٹرولیم مصنوعات کی سبسڈی بالکل ختم کردی جائے گی اور اسی طرح اس بجٹ کے بعد بھی کئی ایسی مصنوعات پر ٹیکس لگائے جاسکتے ہیں جن پر فی الحال نہیں لگائے گئے۔ گویا جب تک آئی ایم ایف راضی نہیں ہوگا، ٹیکس لگتے رہیں گے اور سبسڈیز ختم ہوتی رہیں گی۔
قارئین کی یادداشت کے لیے عرض ہے کہ پاکستان 6 بلین ڈالر، 39 ماہ کے آئی ایم ایف پروگرام میں سے آدھا عمران حکومت کے دوران حاصل کرچکا ہے لیکن اس کی ہدایت کے مطابق باقی اقدامات نہ کرنے پر اگلی اقساط روک لی گئی تھیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کو غیر ملکی زرمبادلہ کےتیزی سے کم ہوتے ذخائر کے پیش نظر فوری طور پر فنڈز کی ضرورت ہے، جو کہ 9.2 بلین ڈالر تک پہنچ چکے ہیں اور صرف 45 دنوں سے کم درآمدات کے لیے باقی رہ گئے ہیں۔
اس موقع پر عام آدمی موجود حکومت اور اس کے مالیاتی مشیروں وزیروں سے یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ اگر آئی ایم ایف آپ کے تمام اقدامات کے باوجود اپنے تحفظات برقرار رکھتا ہے تو پھر آپ کے پاس کیا آپشنز ہوں گے۔ ؟اور یہ کہ کیاقرض کی ایک دو قسطیں آئی ایم ایف سے حاصل کرلینے سے ہمارے معاشی مسائل حل ہوجائیں گے۔ ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ جب تک ہم اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا مقصد نہیں اپناتے اور ان بین الاقوامی سود خور بنیوں سے اپنی جان چھڑانے کو اپنا اولین مقصد نہیں ٹھہراتے، پاکستان کا معاشی استحکام ممکن ہے اور نہ ہی سیاسی استحکام۔