امام زہری کی احادیث اور "عن" سے روایت
سوشل میڈیا کا کمال یہ ہے کہ کسی کے پاس علم ہو یا نا ہو لیکن اس کے پاس بہترین کیمرہ ہو اور ریکارڈنگ کے لیے سٹوڈیو ہو تو وہ عالم، ناقد، محدث اور فقیہ بن جاتا ہے۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے کسی نے نور پوری نام کے کسی صاحب کا کلپ بھیجا جس میں وہ ایک تاریخی روایت پر اپنی محدثانہ رائے پیش کر رہے تھے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ ضعف میں ایک وجہ یہ بیان کی کہ امام زہری نے اس کو "عن "سے روایت کیا ہے اور وہ مدلس ہے اس لیے یہ ضعیف اور مردود ہے۔
میں نے اس کو سنتے ہی مزید وقت ضائع نہیں کیا۔ کیوں کہ اگر کوئی اتنی جرأت کرسکتا ہے کہ ایک روایت کو محض اس لیے رد کرتا ہےکہ یہ زہری نے "عن "سے روایت کی ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ جب بھی امام زہری عن سے روایت کریں تو وہ ضعیف ہوگی تو یہ اس حضرت کے اس فن سے جہالت کے لیے کافی ہے۔ اس لیے کہ:
١- جمہور محدّثین یہ سمجھتے ہیں کہ قرن اول یعنی صحابہ اور تابعین کے دور میں محدّثین حدّثنا، أخبرنا ، سمعت اور عن کے درمیان فرق نہیں کرتے تھے اس لیے ان الفاظ و روایات کی بنیاد پر طبقہ اولی، ثانیہ اور ثالثہ میں ایک حدیث کے بارے میں یہ فیصلہ مشکل ہے کہ راوی نے یہ حدیث اپنے شیخ سے سنی ہے یا نہیں کیوں کہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ کئی بار ایک محدّث سماع کے باوجود عن کے صیغے سے روایت کرتا ہے۔
٢-جمہور متقدمین اور محققین متاخرین کا یہ مذہب نہیں کہ مدلس اگر عن سے روایت کرے تو وہ منقطع اور مردود ہوگی اور جو اس کے قائل ہیں ان کے نزدیک یہ حکم مطلق نہیں جیسا کہ نور پوری صاحب کی جرح سے معلوم ہوتا ہے۔ یہ شیخ البانی نے لکھا ہے اور اس پر میں نے گرفت کرکے صحیح مسلم میں ابو الزبیر المکی کے جابر بن عبد اللہ سے تین سو ساٹھ (۳٦٠)احادیث کو بطور مثال ایک تحریر میں پیش کیا تھا کہ ابو الزبیر مدلس ہیں۔ صرف انہتر (٦٩) میں سماع پر تصریح کی ہے باقی سب روایت عن سے نقل کی ہیں حالانکہ شیخ البانی یا کوئی اور ان روایات پر ضعیف کا حکم نہیں لگا سکتا۔
٣- امام زہری کثیر التدلیس نہیں۔
٤- جن محدثین نے اس کو مدلس کہا ہے انھوں نے خود ان کی روایات کو عن سے نقل کرکے اس سے استدلال کیا ہے جن میں امام شافعی سرفہرست ہیں کہ مدلس کہہ کر بھی الرسالہ اور کتاب الأم میں اس کی روایات سے استدلال کیا ہے۔
اب نور پوری صاحب سے کوئی پوچھے کہ حضرت اگر ایک روایت کو آپ صرف اس لیے رد کرتے ہیں کہ اس میں زہری نے عن کہا ہے تو پھر صحیح بخاری کے بارے میں کیا خیال ہے ؟اس میں تقریبا دو سو نوے (۲۹۰) روایات میں زہری اپنے شیوخ سے عن سے روایت کرتے ہیں تو اب آپ یہی مطلق حکم ان روایات پر لگانے کی جرات کرسکتے ہیں؟ نہیں تو کیوں؟؟ اس لیے کہ اس مسئلہ میں تفصیل ہے۔ ہر مدلس کی روایت عن سے منقطع اور مردود نہیں۔
رہی بات کتب تاریخ میں روایات کی حیثیت کی تو یہ صرف تلبیس ابلیس ہے کہ کتب حدیث اور کتب تاریخ میں روایت اور درایت کے اصول ایک جیسے ہیں۔ نورپوری صاحب کو شاید علم نہیں کہ مورخین نے اپنی کتابوں میں علم اصول حدیث (نقد) کی ان اصولوں کی رعایت ہی نہیں کی ہے جن کی محدثین نے کی ہے کیوں کہ ہر علم کا اپنا معیار ہے اور اس کے اپنے قواعد اور ضوابط ہیں اگر محدثین اور مورخین ایک جیسے معیار رکھتے تھے تو پھر تاریخ کی کتب میں یہ رطب اور یابس کیوں ہے؟؟
کیا نور پوری صاحب یہ بتا سکتے ہیں کہ امام بخاری نے جن اصولوں پر صحیح بخاری میں روایات نقل کی ہیں ان پر تاریخ الکبیر میں بھی نقل کی ہیں ۔ نوری صاحب امام طبری کو دیکھیے جب تھذیب الآثار میں روایت نقل کرتے تو اعلی درجے کی احتیاط کرتے ہیں کیوں کہ وہاں وہ محدث کی حیثیت سے اپنی پہچان کراتے ہیں ۔ جب جامع البیان فی تأویل القرآن میں نقل کرتے ہیں تو اس سے کم درجے کی احتیاط کرتے ہیں کیوں کہ یہاں وہ مفسر ہیں البتہ جب تاریخ الرسل والملوک میں روایت نقل کرتے ہیں تو تساہل اور تسامح سے کام لیتے ہیں۔
امام طبری ایک ہی شخص ہیں لیکن حدیث میں جس منہج سے روایات کی چھان بین کی ہے اسی طرح تفسیر اور تاریخ میں نہیں کی ہے کیوں کہ ہر علم کا اپنا معیار اور اصول ہے ۔آپ تاریخی روایات کو حدیث کے اصول پر نہیں پرکھ سکتے ہیں۔ اگر پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو اپنی پوری تاریخ سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ اور جیسا کہ ڈاکٹر ضیاء اکرم العمری نے لکھا ہے کہ آپ کا اپنے ماضی سے ناطہ نہیں رہ سکے گا۔