امام ابو حنیفہؒ کے برجستہ فقہی جوابات

امام صاحبؒ کے برجستہ جواب، ذہانت اور طباعی عموماً ضرب المثل ہے۔ مشکل سے مشکل مسئلوں میں ان کا ذہن اس تیزی سے لڑتا تھا کہ لوگ حیران ر ہ جاتے تھے۔ اکثر موقعوں پر ان کے ہمعصر اور معلومات کے لحاظ سے ان کے ہمسر موجود ہو تے تھے ان کو اصل مسئلہ بھی معلوم ہو تا تھا لیکن جو واقعہ درپیش ہوتا تھا اس سے مطابقت کر کے فوراً جواب بتا دینا امام صاحبؒ ہی کا کام تھا۔ مثلاً: 

ترکہ کی تقسیم :

وقیع بن جراحؒ سے روایت ہے کہ ہم امام ابو حنیفہؒ کی خدمت میں تھے کہ ایک عورت آئی اور عرض کیا کہ میرا بھائی مرگیا اس نے چھ سو (۶۰۰) اشرفیاں ترکہ میں چھوڑیں مگر مجھے صرف ایک اشرفی ملی ہے؟ امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا ’’یہی تیرا حق ہے‘‘ پھر اس عورت سے سوال کیا اچھا بتاؤ تیرے بھائی نے دو لڑکیاں چھوڑیں؟ عورت نے عرض کیا ’’ہاں‘‘ ماں چھوڑی؟ عورت نے کہا’’ ہاں ‘‘ بیوی چھوڑی؟ عورت نے کہا ’’ہاں‘‘ بارہ بھائی اور ایک بہن چھوڑی؟ عورت نے جواب دیا ’’جی ہاں‘‘۔ تب امام صاحب نے فرمایا کہ تیرے بھائی کی دونوں لڑکیوں کا دو ثلث یعنی چار سو (۴۰۰) اشرفی ہے۔ ماں کا ایک سدس سو اشرفی (۱۰۰) ہے اور بیوی کا ثمن پچہتر(۷۵) اشرفی ہے۔ باقی پچیس (۲۵) اشرفیاں جس میں چوبیس (۲۴) بھائیوں کی ہیں ہر بھائی کو دو اشرفی۔ اور تیری صرف ایک اشرفی۔

وہ  شخص اولیاء اللہ میں سے ہے :

ایک شخص امام ابو حنیفہؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا کہ ’’آپ اس آدمی کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو جنت کی آرزو نہیں کر تا، جہنم سے نہیں ڈرتا، اللہ تعالیٰ سے خوف نہیں کر تا، مردہ کھاتا ہے، بلا رکوع سجدہ کی نماز پڑھتا ہے، اس چیز کی شہادت دیتا ہے جسے دیکھتا نہیں، فتنہ کو پسند کر تا ہے، رحمتِ خداوندی سے بھاگتا ہے اور یہود و نصاریٰ کی تصدیق کرتا ہے؟

امام ابو حنیفہؒ جانتے تھے کہ جس نے اس سے سوال کیا ہے وہ ان سے بہت بغض رکھتا ہے۔ فرمانے لگے جو تم نے سوال کیا ہے اس کو تم خود جانتے ہو اس نے جواب دیا ’’نہیں لیکن یہ باتیں بہت بری ہیں اس لئے آپ سے سوال کیا۔ ‘‘ امام صاحبؒ مسکرائے اور فرمایا اگر میں ثابت کر دوں کہ وہ آدمی اولیاء اللہ میں سے ہے تو تم مجھ کو برا بھلا کہنا بند کر دو گے اور کراماً  کاتبین کو وہ چیز لکھنے پر مجبور نہیں کرو گے جو تمہیں نقصان دیں؟ اس آدمی نے کہا جی ہاں۔ اس پر امام صاحبؒ نے فرمایا ’’تمہارا یہ کہنا کہ ’’ جنت کی آرزو نہیں کرتا اور جہنم سے نہیں ڈرتا‘‘، تو یہ آدمی جنت کے مالک کی آرزو رکھتا ہے اور جہنم کے مالک سے ڈرتا ہے۔ تمہارا یہ کہنا کہ ’’ وہ شخص اللہ سے نہیں ڈرتا ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ سے اس بات میں نہیں ڈرتا کہ اللہ اپنے عدل اور فیصلہ میں کسی پر ذرا بھی ظلم نہیں کریں گے خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’ وما ربک بظلام للعبید ‘ ‘ تمہارا یہ کہنا کہ ’’ وہ مردار کھا تا ہے ‘‘ تو اسکا مطلب یہ ہے کہ وہ آدمی مچھلی کھا تا ہے۔ تمہارے یہ کہنا کہ ’’ بلا رکوع او ر سجدے کی نماز پڑھتا ہے‘‘ مطلب یہ ہے کہ نمازِ جنازہ پڑھتا ہے۔ تمہارا کہنا کہ ’’بے دیکھی چیز کی شہادت دیتا ہے‘‘ مطلب یہ ہے کہ لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کی گواہی دیتا ہے۔ تمہارا کہنا کہ ’’فتنہ کو پسند کرتا ہے‘‘ مطلب یہ ہے کہ مال و اولاد کو پسند کر تا ہے اللہ تعالیٰ نے مال و اولاد کو فتنہ کہا ہے’’انما اموالکم واولادکم فتنہ‘‘ تمہارا یہ کہنا کہ ’’ رحمت سے بھاگتا ہے‘‘ مطلب یہ ہے کہ بارش سے بھاگتا ہے۔ تمہارا یہ کہنا کہ ’’ یہو و نصاریٰ کی تصدیق کر تا ہے‘‘ اسکا مطلب یہ ہے کہ وہ آدمی یہود و نصاریٰ کے قول’’ قالت الیہود لیست النصاریٰ علی شئ وقالت النصاریٰ لیست الیہود علی شی‘‘ میں انکی تصدیق کر تا ہے۔

 امام صاحب کے بر جستہ جوابات سن کر وہ آدمی کھڑا ہو گیا اور امام صاحب کی پیشانی کا بوسہ لیا اور کہا آپ نے حق فرمایا میں اس کی گواہی دیتا ہوں۔

امام صاحبؒ کی شان ہی عجیب تھی :

عبد اﷲ بن مبارکؒ سے روایت ہے کہ میں نے امام ابو حنیفہؒ سے یہ مسئلہ معلوم کیا کہ دو آدمی ہیں ایک کے پاس ایک درہم ہے اور دوسرے کے پاس دو درہم۔ یہ سب دراہم آپس میں مل گئے اور دو درہم کھو گئے۔ کچھ پتہ نہیں کون سے درہم کھو گئے ہیں؟ امام صاحبؒ نے فرمایا بقیہ درہم دونوں کا ہے۔ دو درہم والے کے دو حصہ، ایک درہم والے کا ایک حصہ۔ عبد اﷲ بن مبارک فرماتے ہیں کہ پھر میں نے ابن شبرمہ سے ملاقات کی اور یہی مسئلہ معلوم کیا۔ انہوں نے فرمایا کسی اور سے بھی معلوم کیا؟ عرض کیا ہاں ابو حنیفہؒ سے، تو انہوں نے یہ جواب دیا کہ جو درہم بچ رہا ہے اس کا دو ثلث دو درہم والے کا، ایک ثلث ایک درہم والے کا ہے۔ اس پر ابن شبرمہ نے فرمایا ان سے غلطی ہو گئی۔ دیکھو جو دو درہم ضائع ہوئے ان میں سے ایک تو ضرور دو درہموں میں سے ہے یعنی جس کا دو درہم تھا اس کا تو ایک ضرور ضائع ہوا ہے۔ باقی دوسرا ضائع ہونے والا درہم ان دونوں کا ہو سکتا ہے۔ لہذا جو ایک درہم باقی رہا، وہ دونوں کا نصف نصف ہے۔ عبد اﷲ بن مبارک فرماتے ہیں مجھے یہ جواب بہت ہی اچھا معلوم ہوا۔

اس کے بعد امام ابو حنیفہؒ سے ملاقات ہوئی۔ ان کی عجیب ہی شان تھی۔ اگر ان کی عقل کو نصف دنیا کی عقل سے تولا جائے تو بڑھ جائے۔ وہ مجھ سے فرمانے لگے تم ابن شبرمہ سے ملے اور انہوں نے جواب دیا ہو گا کہ ضائع ہونے والا دو درہموں میں سے ایک ضرور ہے اور بچا ہوا درہم ان دونوں کے درمیان آدھا آدھا ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں، تو امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا دیکھو جب تینوں درہم مل گئے تو آپس میں شرکت واجب ہو گئی پھر ایک درہم والے کا حصہ ہر درہم کا ثلث ہو گیا اور دو درہم والے کا حصہ ہر درہم میں دو ثلث ہوا تو جو درہم بھی کھو گیا دونوں کا کھویا گیا اور دونوں کا حصہ گیا۔

خلیفہ منصور کی بیعت اور امام صاحبؒ کی تقریر :

داؤد طائیؒ سے روایت ہے کہ جب خلیفہ منصور عباسی کوفہ آئے تو سبھی علماء کے پاس خبر بھیجی اور سب کو جمع کیا۔ جب سب جمع ہو گئے تو تقریر کی کہ خلافت آپ لوگوں کے نبی کے گھر والوں تک پہنچ گئی۔ اﷲ نے اپنا فضل کیا، حق کو قائم فرما دیا اور اے جماعت علماء ! آپ لوگ اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ اس کی اعانت کریں اور اپنے لئے ہدیہ، ضیافت اور اﷲ کے مال میں سے جو کچھ بھی آپ لوگ پسند کریں قبول کریں۔ اب آپ لوگ ایسی بیعت کریں جو نفع نقصان کے لئے آپ لوگوں کے امام کے پاس حجت ہو اور قیامت کے دن آپ لوگوں کے لئے امان اور حفاظت ہو۔ آپ لوگ اﷲ کے دربار میں بلا امام کے نہ جائیں۔ اور یہ مت کہئے کہ ’’ہم امیر المؤمنین سے ڈرتے ہیں اس لئے حق نہیں کہہ سکتے۔ ‘‘

علماء نے جواب کے لئے امام ابو حنیفہؒ کی طرف دیکھنا شروع کیا امام صاحبؒ نے فرمایا اگر آپ لوگ چاہتے ہیں کہ میں اپنی اور آپ سب کی طرف سے بات کروں تو آپ لوگ چپ رہیں۔ علماء نے کہا ہم یہی چاہتے ہیں امام صاحبؒ نے تقریر کی اور فرمایا اﷲ کے لئے سب تعریفیں ہیں۔ اس نے حق نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کی قرابت میں پہنچا دیا۔ ظالموں کے ظلم کو دور کر دیا اور ہماری زبانوں کو حق بات کے لئے گویائی بخش دی۔ بلاشبہ ہم سب نے اﷲ کے امر پر بیعت کی اور آپ کے لئے اﷲ کے عہد پر وفاداری کی بیعت کی ’’ الی قیام الساعۃ ‘‘ اﷲ تعالیٰ امر خلافت کو رسول اﷲ ﷺ کی قرابت سے نہ نکالے۔ خلیفہ منصور نے جوابی تقریر کی اور کہا آپ ہی جیسا آدمی مناسب ہے کہ علماء کی طرف سے خطبہ دے۔ ان لوگوں نے آپ کو انتخاب کر کے اچھا کیا اور آپ نے بہترین ترجمانی کی۔  

جب سب لوگ باہر آئے تو لوگوں نے امام صاحبؒ سے معلوم کیا کہ ’’الی قیام الساعۃ ‘‘سے آپ کی کیا مراد تھی؟ آپ نے تو اس وقت بیعت توڑ دی؟ امام صاحبؒ نے فرمایا آپ لوگوں نے حیلہ کیا اور معاملہ میرے سپرد کیا، تو میں نے اپنے لئے حیلہ کر لیا اور آپ لوگوں کو امتحان کے لئے پیش کر دیا لوگ خاموش ہو گئے اور تسلیم کر لیا کہ حق امام صاحبؒ کا ہی فعل ہے۔

یک نہ شد، دو شد :

عبد اﷲ بن مبارک سے روایت ہے کہ ایک شخص نے امام ابو حنیفہؒ سے دریافت کیا کہ میں اپنی دیوار میں جنگلہ کھولنا چاہتا ہوں۔ امام صاحب نے فرمایا جو چاہو کھول لو لیکن پڑوسی کے گھر میں تاک جھانک مت کرنا۔ جب وہ کھڑکی کھولنے لگا تو اس کا پڑوسی ابن ابی لیلیٰ کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی۔ انہوں نے اس کو کھڑکی کھولنے سے منع کر دیا۔ اب وہ بھاگا ہوا امام ابو حنیفہؒ کی خدمت میں پہنچا۔ امام صاحبؒ نے فرمایا اچھا جاؤ اب دروازہ کھول لو۔ وہ دروازہ کھولنے لگا، تو اس کا پڑوسی اس کو لے کر ابن ابی لیلیٰ کے پاس آیا۔ انہوں نے دروازہ کھولنے سے منع کر دیا۔

وہ شخص پھر امام ابو حنیفہؒ کی خدمت میں آیا اور صورت حال بتائی۔ امام صاحبؒ نے پوچھا تمہاری کل دیوار کی کیا قیمت ہے؟ اس نے عرض کیا تین اشرفیاں۔ امام صاحبؒ نے فرمایا یہ تین اشرفیاں میرے ذمہ ہیں جاؤ اور ساری دیوار گرادو۔ وہ آیا اور دیوار گرانے لگا۔ پڑوسی نے دیوار گرانے سے بھی منع کر دیا اور اس کو لے کر ابن ابی لیلی کی خدمت میں حاضر ہوا، ان سے شکایت کی۔ ابن ابی لیلیٰ نے فرمایا وہ اپنی دیوار گراتا ہے تو گرانے دو۔ چنانچہ اس آدمی سے ابن ابی لیلی نے فرمایا جا گرا دے اور جو کچھ تیرا جی چاہے کر۔ پڑوسی نے کہا آپ نے مجھے کیوں پریشان کیا اور ایک جنگلا کھولنے سے منع کر دیا؟ کھڑکی کا کھولنا میرے لئے آسان تھا۔ اب یہ ساری دیوار گرائے گا ابن ابی لیلیٰ نے فرمایا یہ آدمی ایسے شخص کے پاس جاتا ہے جو میری غلطی بتلاتا ہے اب جب میری غلطی واضح ہو گئی تو میں کیا کروں۔

یہ بات بہت بیش قیمت ہے :

علی بن مسہر سے روایت ہے کہ ہم لوگ امام ابو حنیفہؒ کے پاس بیٹھے تھے کہ عبد اﷲ بن مبارک تشریف لائے اور امام ابو حنیفہؒ سے معلوم کیا کہ ایک آدمی ہنڈیا پکا رہا تھا ایک پرندہ اس میں گر کر مرگیا۔ آپ کا اس میں کیا فتویٰ ہے؟ امام صاحب نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ بتاؤ اس کا کیا جواب ہے؟ شاگردوں نے حضرت عبد اﷲ بن عباسؓ کا فتویٰ نقل کر دیا کہ شوربا پھینک دے اور گوشت دھوکر کھا لے۔

امام صاحب نے فرمایا یہی ہم بھی کہتے ہیں البتہ اس میں کچھ تفصیل ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر ہانڈی میں جوش آنے کے وقت گرا ہو تو گوشت اور شوربا سب پھینک دیا جائے اگر جوش ٹھنڈا ہونے کے بعد آ پڑا ہو تو گوشت دھو کر کھا لیا جائے اور شوربا پھینک دیا جائے۔

عبد اﷲ بن مبارک نے فرمایا یہ تفصیل کہاں سے فرما رہے ہیں؟ تو امام صاحب نے فرمایا جب پرندہ ہانڈی میں جوش مارنے کے وقت گرے گا تو سرکے اور مسالہ کی طرح نجس پانی گوشت میں سرایت کر جائے گا اور جب جوش ٹھنڈا ہو گیا تو گوشت کے اوپر لگے گا اندر سرایت نہیں کرے گا۔ عبداﷲ بن مبارک نے فرمایا ’’ہذا زرین ‘‘ یہ بات سونا ہے۔

ایک مرتبہ ابن ہبیرہ نے امام ابو حنیفہؒ کو طلب کیا اور ایک قیمتی انگوٹھی کا نگینہ دکھایا، جس پر لکھا ہوا تھا ’’ عطاء بن عبد اﷲ ‘‘ اور کہا میں اس کو پہننا اچھا نہیں سمجھتا، کیونکہ اس پر غیر کا نام لکھا ہوا ہے اور اس کا مٹانا بھی ممکن نہیں۔ اب کیا کیا جائے؟ امام ابو حنیفہؒ نے فوراً جواب دیا کہ باء کے سر کو گول کر دو ’’ عطاء من عند اﷲ ‘‘ ہو جائے گا۔ ہبیرہ کو امام صاحب کی اس برجستگی پر بڑا تعجب ہوا اور کہنے لگا کتنا اچھا ہوتا اگر آپ ہمارے پاس بکثرت آتے جاتے۔

قاضی ابن شبرمہ چپ ہو گئے :

ابو مطیع سے روایت ہے کہ ایک آدمی کی وفات ہوئی، اس نے امام ابو حنیفہؒ کے لئے وصیت کی۔ اس وقت امام صاحب موجود نہیں تھے۔ جب آئے تو مقدمہ ابن شبرمہ قاضی کے پاس لے گئے، حالات بتائے اور گواہ پیش کئے۔ ابن شبرمہ نے کہا ابو حنیفہ ! کیا آپ قسم کھا سکتے ہیں کہ آپ کے گواہوں نے صحیح گواہی دی ہے؟ امام صاحب نے فرمایا میں موجود نہ تھا اس لئے میرے اوپر قسم ضروری نہیں ہے۔ ابن شبرمہ نے کہا اس میں تمہارا سارا قیاس ختم ہو گیا۔ اس پر امام صاحب فوراً بولے بتائیے ایک اندھا شخص ہے کسی نے اس کو زخمی کر دیا دو شاہدوں نے گواہی دی کیا اب اس اندھے پر یہ قسم واجب ہے کہ وہ کہے میرے شاہد سچی گواہی دے رہے ہیں حالانکہ شاہدوں نے شہادت حق دی ہے؟ یہ سن کر قاضی صاحب چپ ہو گئے اور امام صاحب کے حق میں وصیت کا فیصلہ دے کر نافذ کر دیا۔