التجا
سکوں کی چھاؤں کے منتظر
کب سے کھڑے
غموں کی دھوپ میں تپ رہے ہیں
دور تک کہیں بھی کوئی
چاہت کا سایہ نظر آتا نہیں
میرے مالک
تو اگر چاہے
ذرے کو سورج
اور قطرے کو سمندر بھی بنا دے
دکھوں کے ہم بہت مارے ہوئے ہیں
اب اور امتحاں نہ لے
برسا دے ہم پہ
رحم کی بارش خدایا