اک تماشا ہم انوکھا دیکھتے
اک تماشا ہم انوکھا دیکھتے
خود کو ہنستا سب کو روتا دیکھتے
سر سے پا تک اس کو پورا دیکھتے
خود کو جب آدھا ادھورا دیکھتے
خود تماشا بن گئے دنیا میں ہم
ورنہ دنیا کا تماشا دیکھتے
کیوں بھلا گھر لوٹتے ہم دشت سے
کیوں بھلا دیکھا دکھایا دیکھتے
وسعتیں ملتی اگر بینائی کو
دشت سے گھر گھر سے صحرا دیکھتے
پشت پر بوچھار تیروں کی ہوئی
ورنہ ہم قاتل کا چہرہ دیکھتے
کاش ہو جاتے کسی میلے میں گم
اور پھر جی بھر کے میلا دیکھتے
ایک ہی تھی زندگی سید سروشؔ
کچھ تو کر کے الٹا سیدھا دیکھتے