اک نو بہار ناز کو مہماں کریں گے ہم

اک نو بہار ناز کو مہماں کریں گے ہم
ہر داغ دل کو رشک گلستاں کریں گے ہم


ساغر میں نور دیدۂ انجم انڈیل کر
پھر تیرگیٔ غم میں چراغاں کریں گے ہم


اڑ جائیں گی فضا میں بہاروں کی دھجیاں
جس وقت تار تار گریباں کریں گے ہم


کہتے ہیں آسماں پہ وہ زلفیں بکھیر کر
جھلسی ہوئی زمین پہ احساں کریں گے ہم


جی بھر کے ہم کو کر لے پریشان آسماں
اک روز آسماں کو پریشاں کریں گے ہم


اے وقت سن کہ آئے گا جب بھی ہمارا وقت
طوفاں کو موج موج کو طوفاں کریں گے ہم


جب تک ہمارے سامنے جام شراب ہے
برہم مزاج گردش دوراں کریں گے ہم


وہ آرزو کہ دل سے زباں تک نہ آ سکے
کچھ اس کا تذکرہ بھی مری جاں کریں گے ہم


دور خزاں سے کوئی کہے جا کے اے مجیدؔ
پھر اہتمام جشن بہاراں کریں گے ہم