اک حقیقت ہوں اگر اظہار ہو جاؤں گا میں
اک حقیقت ہوں اگر اظہار ہو جاؤں گا میں
جانے کس کس جرم کا اقرار ہو جاؤں گا میں
کاٹ لو اب کے مجھے بھی خواہشوں کی فصل پر
زندگی اک خواب ہے بیدار ہو جاؤں گا میں
رفتہ رفتہ باغ کی سب تتلیاں کھو جائیں گی
اور اک دن خود سے بھی بیزار ہو جاؤں گا میں
یا تو اک دن توڑ ڈالوں گا حصار آگہی
یا کسی قصے کا اک کردار ہو جاؤں گا میں
عکس اندر عکس آتا ہے نظر مجھ کو کمالؔ
کیا کسی دن آئنے کے پار ہو جاؤں گا میں