اک ہاتھ پہ آنکھیں رکھی ہیں اک ہاتھ پہ چہرا ہوتا ہے

اک ہاتھ پہ آنکھیں رکھی ہیں اک ہاتھ پہ چہرا ہوتا ہے
ہر گام مداری بیٹھے ہیں ہر وقت تماشا ہوتا ہے


اب کون یہاں مجذوب نہیں بازار میں کیا موجود نہیں
عرفان کی مالا بکتی ہے الہام کا سودا ہوتا ہے


اپنی خلوت میں دھیان کہاں خاموشی ہے وجدان کہاں
اک آندھی خاک اڑاتی ہے اک آگ کا دریا ہوتا ہے


دل بحر سمان آنکھیں روشن پر راہ گزر بھی تو دیکھو
اک تنگ نظر کی بدلی نے اندھیر مچایا ہوتا ہے


کل جھوم کے بولی کینچلیٔ الحاد عقیدے کے من سے
اے رند تجھے دو مونہوں نے کیا جام پلایا ہوتا ہے


ہر بت کے آگے سجدے پر زندیقی کو مجبور نہ کر
یہ جہل مراتب آخر کس کافر کو گوارا ہوتا ہے


ہم لوگ پشیماں فطرت ہیں دیوانوں کی کب سنتے ہیں
آنکھوں والے پڑھ سکتے ہیں دیوار پہ لکھا ہوتا ہے