اک گمشدہ شہر

بڑا شوق تھا
کہ بسیں شہر لاہور میں
چھوڑ کر زندگی یہ مضافات کی
چل رہیں اس نگار وطن میں
کہ جس میں ہیں ہر سو مہکتی فضائیں
برستی ہیں مخمور کالی گھٹائیں
یہ لاہور تھا
میرے خوابوں کا مسکن
مری چاہتوں کا ختن
گزارے تھے عہد جوانی میں میں نے
یہاں سینکڑوں دن
برس ہا برس تک
رہا میں مقید
بہت دور اس ایک چھوٹے نگر میں
وہ چھوٹا نگر جس نے آسودگی دی
دیا رزق بھی گرچہ مجھ کو فراواں
مگر میرے دل میں وہ اترا نہیں ایک دن بھی
زمین چاند موسم ستارے
سبھی ایک سے تھے
مگر پھر بھی مجھ کو وہ بھایا نہیں ایک دن بھی
مجھے آخرش زندگی لے ہی آئی
اسی میرے خوابوں کے گھر میں
سمندر کی صورت افق تا افق
دور پھیلے نگر میں
ولیکن وہ شہر نگاراں وہ شہر ختن
میری یادوں کا مسکن
نہ جانے کہاں ہے؟
اسے آج تک ڈھونڈ پایا نہیں میں
نہ وہ مال ہے نہ وہ شملہ پہاڑی
نہ ٹمٹم نہ ٹانگہ نہ اک آدھ گاڑی
جمال سحر ہے نہ مہکی فضائیں
سماعت پہ بار گراں موٹروں کی صدائیں
ہے شور قیامت دھواں ہی دھواں ہے
مرا شہر لاہور جانے کہاں ہے