اک دیے کی لو کف صد آئینہ چمکا گئی

اک دیے کی لو کف صد آئینہ چمکا گئی
روشنی کی اک کرن مہتاب کو شرما گئی


ہاتھ ملتا دن کسی امید پر منتج ہوا
خستگی بڑھتی ہوئی دیوار شب تک آ گئی


اشک شوئی کے لیے تیری حمایت چاہئے
دیکھ تیری ہم سبوئی میں یہ نوبت آ گئی


عذر خواہانہ نگاہیں حرف چنتی رہ گئیں
باز پرساں خامشی اپنی کہی منوا گئی


کب تلک یہ عالم دل بستگی دل خستگی
دھڑکنوں کو یہ مشقت ہو نہ ہو راس آ گئی


شب تری تصویر کا بوسہ لیا اور یک بہ یک
اک نمی سی تھی کہ عکس و آئنہ دھندلا گئی


دل کی حالت کو اگر تعبیر کیجے عشق سے
منزلوں کے پھیر میں پھر فہم دھوکا کھا گئی


شاعری شرما رہی ہے آج اس کو دیکھ کر
زندگی اک خوب صورت آدمی کو کھا گئی


یہ نہیں رہنے کی جائے چشم حیراں یاں سے چل
درشنی جلووں کی بستی میں نظر چندھیا گئی