ادراک حسن کا مسئلہ
مصوری کے کسی حسین شاہکارسے لطف اندوز ہونا ہو تولازم ہے کہ اسے ’’موزوں فاصلے‘‘ سے دیکھا جائے کیونکہ اگر فاصلہ زیادہ ہوا توتصویر کے خدوخال، اس کی کمپوزیشن، اس کے خطوط اور قوسوں کا حسن نگاہوں سے اوجھل رہے گا۔ دوسری طرف اگرفاصلہ کم رہ گیا توتصویر میں سلوٹیں، رنگوں کا غدر اورقوسوں کا ازدحام دکھائی دینے لگے گا بلکہ اگر فاصلہ بہت ہی کم ہوا توشاید تصویر نظر ہی نہ آئے۔ صرف کینوس ہی دکھائی دے۔ قریب سے تو اپنا چہرہ بھی نظر نہیں آتا۔ لہٰذا حسن کے ادراک کے لیے موزوں فاصلے کی دریافت اہم ترین اورنازک مرحلہ ہے۔
مگراس کا یہ مطلب نہیں کہ حسن کے ادراک کے لیے کسی نے فاصلہ مقرر کر رکھا ہے۔ دراصل حسن تو دو انتہاؤں کے درمیان یا یوں کہئے کہ دو کناروں کے درمیان (ناظر و منظور دو کنارے ہی تو ہیں) اس سمندرسے مشابہ ہے جو قدم بہ قدم اور لمحہ بہ لمحہ اپنا رنگ روپ بدلتا ہے۔ مثلاً وہ نہ صرف صبح، دوپہر اورشام کومختلف نظرآتا ہے بلکہ سورج کی شعاعوں کی ہر معمولی تبدیلی سے اس کی صورت تبدیل ہوجاتی ہے۔ اسی طرح اس کے قریب آنے یا اس سے دور جانے کے ہرمرحلہ پر اس کامنظر بھی تبدیل ہوجاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ حسن وقت اور فاصلے کے مدوجزر میں مضمر اپنی لاتعداد کروٹوں سے ہر بار اپنا ایک نیا منظر دکھانے پر قادر ہے۔
شاعر یا مصور حسن کے ایک یا متعدد پہلوؤں کو یقیناً اپنی گرفت میں لے سکتا ہے لیکن اس کے لیے حسن کو اس کے تمام تر زاویوں کے ساتھ گرفت میں لینا ناممکن ہے۔ یہ کام صرف عارف ہی کرسکتا ہے بلکہ شاید وہ بھی پوری طرح نہیں کرسکتا کیونکہ حسن اپنی لطیف ترین صورت میں زمان و مکان کی حدود سے ماورا ایک ایسا لازوال منظر ہے جس کے اندر تو صوفی یا عارف سفر کرسکتا ہے مگر موزوں فاصلے سے محروم ہونے کے باعث اس کی پوری کمپوزیشن یا اس کے کل کو دیکھ نہیں سکتا، تاہم یہ کیا کم ہے کہ وہ اس کے اندر سفر توکرسکتا ہے۔
اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ حسن سے لطف اندوز ہونے کے لیے نہ صرف فاصلہ ضروری ہے بلکہ اس فاصلے کے کم یا زیادہ ہونے کی طلب بھی خودحسن کے ہر روپ میں موجود ہوتی ہے۔ حسن ازل کو پوری طرح دیکھ نہ سکنے کی وجہ یہی ہے کہ ایسا کرنے کے لیے ناظر کو پیچھے ہٹنے کے لیے جو لامحدود جگہ یعنی Spaceدرکار ہے، وہ اسے حاصل نہیں ہے۔ دوسری طرف فنون میں جمالیاتی فاصلے (Aesthetic Distance) کی طلب ہی موجود نہیں ہوتی بلکہ خود فن پارہ اس فاصلہ کا تعین بھی کرتا ہے۔ مراد یہ کہ ہر فن پارہ اپنی جگہ ایک کائنات ہے جو ایک خاص فاصلے ہی سے قاری پر خودکو منکشف کرتا ہے۔ جب تخلیق اور قاری دونوں ایک خاص رشتے میں منسلک ہوجائیں، یوں کہ قاری کو غیرشعوری طورپر اس جمالیاتی فاصلے کا ادراک ہوجائے جس کی طلب خود تخلیق میں مضمر تھی، تو پھر تخلیق کا حسن پوری طرح منکشف ہوتا ہے ورنہ نہیں۔ یہ بات ایک شعری تخلیق پر بطور خاص صادق آتی ہے کیونکہ شعری تخلیق وقت کے تسلسل اور فاصلوں کے مدوجزر سے حاصل کیا ہوا وہ ’’لمحہ‘‘ ہے جس کی شاعر نے لفظوں میں تجسیم کردی ہے۔ اب اس بات کا تمام تر دارومادر قاری پر ہے کہ وہ کس حد تک اس جمالیاتی فاصلے کو دریافت کرتا ہے جو اس قید کیے گئے لمحہ یعنی شعری تخلیق سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کے لیے درکار ہے۔
بعض قاری شعری تخلیق کو دیکھنے کے لیے کچھ زیادہ ہی پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ اس حد تک کہ تخلیق اپنی سیاسی، سماجی یا تاریخی سوانحی پس منظر میں گم ہوجاتی ہے۔ یہ لوگ تخلیق سے زیادہ تخلیق کو جنم دینے والے محرکات کا ذکر کرتے ہیں۔ ’’نئی تنقید‘‘ والوں نے اسی لیے ان لوگوں کو ہدف تنقید بنایا تھا کہ وہ تخلیق کے بجائے تخلیق کے پس منظر کا جائزہ لینے میں سارا وقت گزار دیتے تھے۔ دوسری جانب بعض قاری تخلیق کے بہت قریب آجاتے ہیں۔ اتنے قریب کہ وہ اس کی لفظیات پر تمام تر توجہ مرکوز کرکے تخلیق کے آہنگ، اس کی قوسوں کے ابھار نیز تراکیب کے حسن اور استعارے کی قوت سے لطف اندوز ہونے لگتے ہیں لیکن موزو ں فاصلہ سے محروم ہونے کے باعث تخلیق کو تمام و کمال یعنی اس کی Totalityمیں دیکھنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ تخلیق کی Totalityسے کیا مراد ہے؟ ’’نئی تنقید‘‘ والوں نے اس کے لفظی اور معنوی گشٹالٹ کو اس کی Totalityقرار دیا تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی شے اپنے تناظر سے الگ نہیں ہوتی۔ اس کا مطالعہ کرنے کے لیے ہمیں ان رشتوں کو بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ جو اس شے کے دوسری اشیاء کے ساتھ قائم ہیں۔ جس طرح خودتخلیق مختلف عناصر کے رشتوں سے مرتب ہوتی ہے، اسی طرح وہ ان رشتوں سے بھی عبارت ہے جو اس نے اپنے ارد گرد کی دنیا (ماضی، حال اور مستقبل) سے قائم کیے ہوتے ہیں۔ لہٰذا فنی تخلیق سے لطف اندوز ہونے کے عمل میں ایسے فاصلے کو دریافت کرنا ضروری ہے جس سے تخلیق کی بنت میں استعمال ہونے والے دھاگوں کے علاوہ وہ دھاگے بھی نظر آسکیں جن سے تخلیق نے خودکوباہر کی دنیا سے جوڑ رکھا ہے۔
ظاہر ہے کہ قاری شعوری طورپر اس فاصلے کا تعین نہیں کرسکتا۔ اسے دریافت کرنے کے لیے خودقاری کو تخلیقی عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ وہ لوگ جو تنقید کو محض پرکھ، تجزیہ یا تشریح تک محدود رکھتے ہیں، ان کے لیے یہ سوچنے کی بات ہے کہ نظم کی قرأت بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ نظم کی تخلیق۔ بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ نظم کی تخلیق کے دو مراحل ہیں۔ ایک وہ جب نظم لفظوں میں متشکل ہوتی ہے، دوسری وہ جب قاری اس کو پڑھتا ہے کیونکہ اس عمل ہی سے وہ نظم کو مکمل کرتا ہے۔ واضح رہے کہ نظم کا پہلا قاری خودشاعر ہے۔ اگر شاعر نے اپنے تخلیقی عمل میں ’’موزوں فاصلہ‘‘ دریافت نہیں کیا تو وہ نظم کو مکمل نہیں کرپائے گا اور اگر جھول رہ گئے تو باہر کا قاری بھی نظم کی تخلیق مکرر نہیں کرسکے گا۔
مثلاً اگر تخلیق اکہری ہونے کے باعث محض ایک معنی پر مشتمل ہے تو قاری بھی اس ایک معنی تک ہی محدود رہے گا لیکن اگر تخلیق آئینہ صفت ہے تو پھر جب قاری یعنی ایک آئینہ صفت قاری اس کے سامنے آئے گا تو عکس درعکس کا سلسلہ از خود پیدا ہوجائے گا، جو بالآخر تخلیق کی معنیاتی توسیع پر منتج ہوگا لہٰذا تخلیق کے حسن کا ادراک تناظر اور منظور دونوں کی تخلیقی کارکردگی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ قاری کو کیونکر معلوم ہوگا کہ اس نے ’’موزوں فاصلہ‘‘دریافت کرلیا ہے؟ یہ معاملہ اس قدر لطیف اور نازک ہے کہ اس میں علت کی نشاندہی معلول سے کرنا پڑتی ہے۔ جس طرح الیکٹرون کی موجودگی کا ادراک ان لکیروں یا ان مقامات تصادم سے ہوتا ہے جہاں سے الیکٹرون گزری تھیں یا جہاں الیکٹرون آپس میں ٹکرائی تھیں، بالکل اسی طرح قاری خود پر ثبت ہونے والے تخلیق کے اثرات ہی سے جان سکتا ہے کہ اس نے ’’موزوں فاصلہ‘‘ دریافت کرلیا ہے یا نہیں بلکہ یہ تک کہ کیا تخلیق واقعتاً ایک فن پارہ ہے یا محض کاریگری کا ایک نمونہ؟ یہ اثرات کئی طرح کے ہوسکتے ہیں۔ مثلاً اگر تخلیق کے مطالعہ سے قاری محض اپنے فاضل جذبات کا اخراج کرے جیسے مزاحیہ تخلیق کو سن یا پڑھ کر اسے تفریح کا احساس ہوگا جوکیتھارسس سے ایک مختلف احساس ہے۔
کیتھارسس جذبات کے اخراج کا نام نہیں ہے۔ کیتھارسس سے مراد یہ ہے کہ جذبات صرف یا خرچ ہوجائیں۔ اخراج کی صورت میں قاری اس اسٹیم انجن سے مشابہ ہے جس نے فاضل اسٹیم خارج کردی ہے۔ خرچ کرنے کے عمل میں قاری اس اسٹیم انجن کی طرح ہے، جو اسٹیم کو استعمال کرکے خود کو چلاتا ہے۔ لہٰذا قاری کا ترفع فاضل جذبات کے اخراج سے حاصل ہونے والی جسمانی تسکین سے نہیں بلکہ جذبات کو صرف کرنے کے نسبتاً طویل عمل سے عبارت ہے۔ تاہم ایک اعلیٰ تخلیق قاری پر ایک اور طرح کا اثر بھی مرتسم کرتی ہے جسے Ecstasisکہا گیا ہے یعنی جب قاری ایک حالت جذب میں چلا جاتا ہے۔ یہ حالت جذب صوفی کی مجذوبیت سے ایک مختلف شے ہے۔
صوفی جب حسن کو اپنے روبرو پاتا ہے تو اس کی ذات حسن کی مطیع ہوکر اپنے آپ کو حسن میں جذب کر دینے پر مائل ہوجاتی ہے یعنی قطرہ سمندر میں مل جانے کی آرزو میں سرشار ہوجاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں تخلیق کا قاری ایک ایسی حالت جذب میں ہوتا ہے جس میں وہ اپنی الگ ہستی کو بہرحال قائم رکھتا ہے۔ گویا اس کی حیثیت ایک خوشہ چین کی ہوتی ہے اور وہ تخلیق کے حسن سے جمالیاتی حظ کی تحصیل میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ حسن کے ادراک کے لیے ناظر کا ہونا ضروری ہے۔ صوفی اپنی حالت جذب میں ناظر کی حیثیت سے دست کش ہوجاتا ہے اور حسن بھی محض منظور نہیں رہتا۔ دوسری طرف تخلیق کا قاری ’’موزوں فاصلے‘‘ کو قائم رکھتے ہوئے ’’ناظر اور منظور‘‘ کی دوئی کو جنم دیتا ہے اور یوں حسن کی بقاکا ضامن بن جاتا ہے۔
واضح رہے کہ حسن وہ نقطہ ہے جہاں ناظر اور منظور ایک دوسرے کے روبرو آکھڑے ہوتے ہیں اوراس وقت تک قائم ہے جب تک ’’ناظر اور منظور۔‘‘ دوئی کا موجود ہونا ازبس ضروری ہے ورنہ تخلیق کاری کا عمل ختم ہوجائے۔ خود کائنات کے سلسلے میں بھی دیکھئے کہ وحدت اور کثرت کی دوئی ہی سے یہ ساری بہار آئی ہوئی ہے۔ اگر وحدت کے اندر سے کثرت طلوع نہ ہو تو وحدت کی پہچان ممکن نہیں ہے اوراگر کثرت اپنی داخلی وحدت سے محروم ہوجائے تو وہ Entropyکی زد میں آکر معدوم ہوجائے گی۔ لہٰذا یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے ناگزیر ہیں۔
مگریہ نکتہ کچھ مزید وضاحت کا طالب ہے۔ جمالیاتی حس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ تین مراحل میں سے گزرتی ہے۔ پہلا وہ جب رنگ ’’سر‘‘ قوس، یا لہر کا ادراک ہوتا ہے۔ دوسرا وہ جب ناظران اوصاف کو لطف افزا صورت یا پیٹرن میں ابھارتا ہے۔ ہربرٹ ریڈ نے لکھا ہے کہ اصلاً جمالیاتی حس کی کارکردگی ان دومراحل پر ختم ہوجاتی ہے مگرایک تیسرا مرحلہ بھی ہے، جہاں ناظر ’’صورت یا پیٹرن‘‘ اور اپنے ’’سابقہ جذبات‘‘ میں مطابقت پیدا کرتا ہے۔ اس کو اظہاریت Expression کہہ لیجئے۔ جمالیات کا تعلق صرف پہلے دو مراحل سے ہے مگر فن ان تینوں مراحل کے انضمام کا نام ہے۔
سابقہ جذبات کی بازآفرینی کا یہ تصور، جس کا ہر برٹ ریڈ نے ذکر کیا، ٹالسٹائی اور ورڈزورتھ دونوں کے ہاں ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ ورڈزورتھ کے مطابق تخلیق کار ایک حالت سکون میں اپنے جذبات کی اس طور بازآفرینی کرتا ہے کہ بتدریج حالت سکون ختم ہوجاتی ہے اور تخلیق کار جذبات کے اسی پرانے عالم میں خود کوپاتا ہے جس میں وہ کبھی گرفتار ہواتھا۔ ٹالسٹائی کے مطابق فن کار اس جذبے کو، جس کا وہ تجزیہ کرچکا ہے، دوبارہ متحرک کرتا ہے۔ پھر خط، رنگ، سر یا لفظ کی صورت میں اسے دوسروں تک منتقل کردیتا ہے اور وہ بھی اس جذبے کا اسی طرح تجربہ کرتے ہیں جس طرح فن کار نے کیا تھا۔ اس پر ہر برٹ ریڈ نے یہ اعتراض کیا ہے کہ فن کار جذبے کو دوسروں تک منتقل نہیں کرتا بلکہ دوسروں کے جذباتی تشنج کو رفع کرتا ہے۔ فن کے ذریعے سکون قلب کی یافت کا کارن یہی ہے۔
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ یہ دونوں نظریے اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔ فن سے تحصیل مسرت کا انداز ہومیوپیتھی طریق علاج کے مماثل ہے، جس میں مرض کو تھوڑا سا مشتعل کرکے اسے ختم کردیا جاتا ہے۔ فن میں بھی قاری یا ناظر کے ہاں پہلے جذبات کا ابھار پیدا ہوتا ہے پھر جمالیاتی حظ کی تحصیل ہوتی ہے، جس سے سکون اور قرا ر ملتا ہے۔ چونکہ آرٹ حسن کی ایک صورت ہے، لہٰذا حسن کے روبرو آکر ناظر جو سکون محسوس کرتا ہے وہ بھی سینے کے اندر موجزن ہونے والے ابھار اور پھر اس کے استعمال ہوجانے کے عمل کا نتیجہ ہے۔ مگرسوال یہ ہے کہ کیا قاری یا ناظر، تخلیق یا منظر کے روبرو محض ایک بھکاری کی طرح آکھڑا ہوتا ہے جس کے کشکول میں جمالیاتی حظ انڈیل دیا جاتا ہے یا وہ خود بھی تخلیقی عمل میں شامل ہوکر تخلیق یا منظرکومکمل کرتا ہے؟
تخلیق کے اجزائے ترکیبی میں پیٹرن اور توازن کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ بعینہٖ جیسے ایک خوبصورت چہرہ بھی خطوں اور قوسوں کی ایک متوازن صورت ہی کو پیش کرتا ہے مگر تخلیق کے اجزائے ترکیبی ایک پگھلی ہوئی صورت میں ابھرتے ہیں اور قاری یا ناظر اپنے محسوسات کی مدد سے بھی ان میں پیٹرن ابھارتا ہے۔ اس کی مثال اس طرح ہے کہ اگر دیوار پردھبے پڑے ہوں توناظر ان سے اپنے متخیلہ کی مدد سے نیز اپنی مخصوص جذباتی کیفیت کے مطابق پیکر تخلیق کرے گا۔ اس فرق کے ساتھ کہ دیوار پر پڑا ہوا دھبہ تو محض کچا مواد ہے، جس میں فن کا اسٹرکچر موجود نہیں ہے۔ دوسری طرف جب قاری یا ناظر تخلیق کے روبرو آتا ہے تو محض اپنے متخیلہ کے زورپر تصویر نہیں بناتا بلکہ تخلیق کے اسٹرکچر کے مطابق ایسا کرتا ہے۔
دراصل فنی تخلیق کا امتیازی نشان ہی یہ ہے کہ اس کا اندر پوری طرح ابھرا ہوا نہیں ہوتا، جیسے مثلاً کپڑے کا ڈیزائن جو لکیروں یا دائروں کی تکرار سے عبارت ہوتا ہے۔ ایک فنی تخلیق میں تو جابجا چاک یعنی Gapsہوتے ہیں مگر یہ چاک تخلیق کے اسٹرکچر کے تابع ہیں۔ ایک اعلیٰ تخلیق اپنے قاری یا ناظر کو حسن کادان نہیں دیتی، اسے اپنی طرف بلاتی ہے تاکہ وہ اس کے اندر کے شگافوں کو بھردے۔ یہ وہی بات ہے جسے تھیوڈورلپس نے Einfumlungیا Empathy کا نام دیا تھا جس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ناظر یا قاری ہمدردی کی کیفیت میں ڈوب کر اپنے جذبات کا اظہار کرے بلکہ تخلیق کے اندر داخل ہوکر اپنے محسوسات سے اس شگاف کو بھردے جو لازمی طورپر ایک ایسی تخلیق میں موجود ہوتا ہے۔
یونگ نے آر کی ٹائپ کا جو تصور دیا ہے وہ بھی ایک ایسی شے سے جو اندر سے خالی ہوتی ہے مگر جس میں درآنے والے محسوسات آر کی ٹائپ کے اسٹرکچر کے مطابق ہی پیکروں میں ڈھلتے ہیں۔ فنی تخلیق ایک طرح کا آر کی ٹائپ ہی تو ہے جس میں قاری یا ناظر کے محسوسات داخل ہوکر اسے مکمل کرتے ہیں۔ حسن کے ادراک کا معاملہ بھی فنی تخلیق کی اس بنت کاری سے پوری طرح سمجھ میں آتا ہے۔ حسن (چاہے وہ منظر کا ہو، چہرے کا یا تخلیق کا) اپنے قاری یا ناظر کے بغیر مکمل نہیں ہے۔ اصلاً تخلیق اور اس کے قاری میں وہی رشتہ ہے جو عورت اور مرد میں ہے۔
کہا گیا ہے کہ حیاتیاتی سطح پر کبھی عورت اور مرد ایک ہی جسم میں موجود تھے (اس مرحلے کو Hermophrodotismکا نا م ملا ہے) پھر جدا ہوئے اور تب سے اب تک ایک ہوجانے کی آرزو میں سرشار ہیں۔ تصوف اور ویدانت نے اس بات کو یوں بیان کیا ہے کہ جزوکل سے جدا ہوکر مایا، سراب یا نراج کی زد میں آتا ہے۔ پھر کل میں جذب ہوکر اس سے نجات پاتا ہے۔ حسن کے ادراک میں بھی یہی صورت ابھرتی ہے کہ قاری حسن کو ایک Package کے طورپر قبول نہیں کرتا بلکہ آگے بڑھ کر حسن کو خودمکمل کرتا ہے۔
مصوری کے ایک شاہکار کی خوبی یہی ہے کہ آپ کینوس سے باہر کھڑے نہیں رہتے بلکہ لپک کر اس کے اندر داخل ہوجاتے ہیں، تاہم اس میں پوری طرح جذب نہیں ہوتے (جیسے صوفی حسن کل میں جذب ہوکر خودکوگنوادیتا ہے) بلکہ تخلیق کے قریب جاکر بھی فاصلے کو قائم رکھتے ہیں۔ جمالیاتی فاصلے یعنی Aesthetic Distance کی یہ لطیف ترین صورت ہے جو خوردبینی سطح پر دکھائی دیتی ہے۔ بہرکیف جمالیاتی فاصلہ دوربینی سطح کا حاصل ہو یا خوردبینی سطح کا، اس کے بغیر جمالیاتی حظ کی تحصیل ممکن نہیں ہے۔
حسن سے جمالیاتی حظ کی تحصیل کے سوال پر ادب میں جمالیات Aesthetics کی ایک باقاعدہ تحریک نے جنم لیا تھا جو آج بھی ادب کی پرکھ کے سلسلے میں ایک اہم زاویہ نگاہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی فلسفیانہ بنیاد کے ضمن میں کانٹ کا یہ نظریہ بہت مقبول ہے کہ جمالیاتی حظ شے کو اس کی واقعی صورت میں دیکھنے سے ملتا ہے۔ اگر شے کو کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ سمجھا جائے مثلاً اخلاقی یا نظریاتی یا افادی تواس سے جمالیاتی حظ کی تحصیل ناممکن ہوگی۔ دوسرے لفظوں میں حسن مقصود بالذات شے ہے۔ اس کا سارا جادو اس کے خطوں، قوسوں اور رنگوں نیز ان سے مرتب ہونے والی اس کمپوزیشن میں ہے جو اپنا جواز خود ہے۔ حسن سے لطف اندوز ہونے کے لیے حسن کو اس صورت میں پیش کرنا ہوگا جس میں کوئی ملاوٹ نہ ہو۔
رابعہ نے کہا تھا، اے خدا اگر میں تجھے اس لیے چاہوں کہ تو مجھے جنت عطا کرے تو مجھے جنت عطا نہ کر اوراگر میں تجھ سے اس لیے پیار کروں کہ تومجھے جہنم میں نہ ڈالے تو مجھے جہنم میں ڈال، لیکن اے خدا اگرمیں تجھے صرف تیرے لیے چاہوں تو مجھے اپنے حضور آنے دے! یہی ادب میں جمالیات کی اس تحریک کا لب لباب ہے جو فرانس میں انیسویں صدی کے نصف آخر میں شروع ہوئی، تاہم جس کی بنیاد جرمنی میں اس وقت پڑ گئی تھی جب کانٹ، شغر اور شلنگ نے آرٹ کو مقصودبالذات قرار دیا تھا۔ انگلستان میں اس وقت جب کولرج اور کارلائل نے مکان (Space) میں لامکانیت Spacelessness کے انکشاف کو قبول کیا تھا اورامریکہ میں اس وقت جب ایڈگرالین پو اور ایمرسن نے اسے اپنایا تھا۔
انگلستان اورامریکہ میں بالخصوص آرٹ کی پرکھ کے سلسلے میں حسن کو اولین اور بنیادی حیثیت تفویض کرنے کا رویہ اس صنعتی انقلاب کا ردعمل تھا، جس نے مشین کے ذریعے فطرت کو تسخیر کرنے کا عمل کا آغاز کردیا تھا۔ فرانس میں جمالیات کے اولین پیروکاروں میں مادام دی سیتل، کوزین اور ہیوگو کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ تاہم اس کا باقاعدہ آغاز بودلیر سے ہوا جس نے پو اور گاتیر Gautier سے متاثر ہوکر تجربے کے جمالیاتی پہلو کو اہمیت دی اوریہ موقف اختیار کیا کہ شاعر آزاد ہے اور تخلیق کاری کے عمل میں حقیقت اولیٰ کا ادراک کرنے پر قادر ہے۔ انیسویں صدی کے ربع آخر کے فرانس میں علامت نگاری یعنی سمبل ازم کی تحریک نے جس کے ساتھ ملارمے، ورلین، رمبو اور ولیری کے نام وابستہ ہیں، بودلیر سے براہ راست اثرات قبول کیے۔
اس تحریک میں اس بات پر زوردیا گیا کہ شاعری کو موسیقی کی سطح پر لایا جائے تاکہ وہ جذبے کو اس کی خالص ترین صورت میں پیش کرسکے اور مثالی حسن کے بارے میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ وہ ظاہری دنیا سے ماورا ہے۔ اس تحریک کے بعض علم برداروں نے روشن امیج کے گردشاعری کا ایک ہالہ ابھار دیا تاکہ خالص شاعری وجود میں آسکے اور بعض نے سرریلی انداز کو اپنا کر شاعری میں ایک خوابناک فضا پیدا کرنے کی کوشش کی۔
انگلستان نے اس سلسلے میں کچھ اثرات توفرانس سے قبول کیے اور کچھ کیٹس اور رسکن ایسے پیش روؤں سے۔ بالخصوص پیٹر اور آسکر وائلڈ کے ذریعے انگلستان میں اس تحریک نے اپنے پرپرزے نکالے۔ اس کا لب لباب یہ تھا کہ شاعر اپنے اندر کے شعلے کو بجھنے نہ دے اورحسن کے لیے اپنے والہانہ جذبات کو سرد نہ پڑنے دے، نیز آرٹ کو ذریعہ نہ سمجھے کیونکہ آرٹ مقصود بالذات شے ہے۔ بعدازاں خود ایلیٹ اور ایذراپاؤنڈ نے فرانس کی تحریک سے متاثرہوکر نظم کومعروضی نظر سے دیکھنے کا رویہ اختیار کیا جوانگلستان اور امریکہ میں پروان چڑھنے والی ’’نئی تنقید‘‘ میں اس طور جذب ہوا کہ تخلیق کو اس کے پس منظر سے الگ کرکے اس کا تجزیہ بطور ایک منفرد اکائی کیا جانے لگا۔