ادھر سے دیکھیں تو اپنا مکان لگتا ہے

ادھر سے دیکھیں تو اپنا مکان لگتا ہے
اک اور زاویے سے آسمان لگتا ہے


جو تم ہو پاس تو کہتا ہے مجھ کو چیر کے پھینک
وہ دل جو وقت دعا بے زبان لگتا ہے


شروع عشق میں سب زلف و خط سے ڈرتے ہیں
اخیر عمر میں ان ہی میں دھیان لگتا ہے


سرکنے لگتی ہے تب ہی قدم تلے سے زمین
جب اپنے ہاتھ میں سارا جہان لگتا ہے


دو چار گھاٹیاں اک دشت کچھ ندی نالے
بس اس کے بعد ہمارا مکان لگتا ہے