حسن نجات دہندہ ہے
صرف حسن
ہاں، صرف حسن نجات دہندہ ہے
آنکھوں کا
جو گھٹیا پنجروں میں قید ہے
اور معمولی مناظر میں محبوس
کسی گلی سڑی لا یعنیت کی طرح نجس
کسی بھولے ہوئے لفظ کی طرح آسیب زدہ
کیوں نہیں بوجھ لیتی اولاد آدم
کہ کھل جائے گا سارا چھپاؤ
ایک ہیبت ناک خالی ٹھہراؤ میں
جو ایک سفاک بیداری سے مہر بند ہے
ایک مدفون پرواز کی طرح
ایک حنوط شدہ افق کی طرح
بالآخر ہستی کی زاد بوم پر دھند چھا گئی
اب کاکروچ غارت گر فاتح ہیں
اس کائنات کے جہاں وقت ابھی اجنبی نہیں ہوا
ان کی سلطنت میں تاریخ ممنوع ہے
زمانے پر خراش ڈالتی خار دار طغیانی
حوادث سے پرے چلتی ہوئی
ٹکرا رہی ہے قدیم چٹانوں سے
ایک بہت ہی سیاہ رات کے سہمے ہوئے ستارے
ایک پر ہول فضا میں سانس لیتی خاموشی
جسے ہم خواب کرنا چاہتے ہیں
خواب جوہر ہیں اصیل نیند کا
انسانی آنکھوں کا
ہمارے سیارے
اور ہمارے زمانے اتنے خلاق نہیں ہیں
کہ بنا سکیں ایک سچی رات
جو سہار سکے
ابدیت سے تراشی ہوئی وہ تہہ دار گہرائی
جس سے تخیل کا قماش بنا گیا ہے
یقیناً ہمیں ایک نیند کی ضرورت ہے
کسی اساطیری ستارے کا دبیز کا ہی سایہ
غیبی دھندلکے کو سنوارتا اجالتا
ایک دل، ایک زخم بنا سکتے ہیں دیکھے کو ان دیکھا
درد کفیل ہے روح کا
لفظ کی بلوغت تک شعلے کی پختگی تک