حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں

حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں
ان کی صورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں


اف وہ مرمر سے تراشا ہوا شفاف بدن
دیکھنے والے اسے تاج محل کہتے ہیں


وہ ترے حسن کی قیمت سے نہیں ہیں واقف
پنکھڑی کو جو ترے لب کا بدل کہتے ہیں


پڑ گئی پاؤں میں تقدیر کی زنجیر تو کیا
ہم تو اس کو بھی تری زلف کا بل کہتے ہیں