حسن ہے مہرباں تعجب ہے

حسن ہے مہرباں تعجب ہے
پھر بھی ہم بد گماں تعجب ہے


آمد آمد تھی موسم گل کی
جل گیا آشیاں تعجب ہے


جو بھٹکتے تھے پہنچے منزل پر
کھو گئے کارواں تعجب ہے


گرم تھی کل تو عیش کی محفل
آج ماتم وہاں تعجب ہے


پھول جھڑتے تھے ہر گھڑی جن سے
ان لبوں پر فغاں تعجب ہے


توبہ کی تھی شراب خانے سے
آ گئے پھر یہاں تعجب ہے


کوئے جاناں کی سر زمیں جیسے
بن گئی آسماں تعجب ہے