ہجوم رنج سے دل کو مسرت ہوتی جاتی ہے

ہجوم رنج سے دل کو مسرت ہوتی جاتی ہے
کہ مجھ پر آئنہ اپنی حقیقت ہوتی جاتی ہے


یہ کس تعمیر ناقص کی بھری جاتی ہیں بنیادیں
کہ دنیا بے چراغ آدمیت ہوتی جاتی ہے


وہ بے پردہ حریم شاعری میں آتے جاتے ہیں
مرتب میری تاریخ‌‌ محبت ہوتی جاتی ہے


میں جتنا ان کے اسباب جفا پر غور کرتا ہوں
مجھے اپنی وفاؤں پر ندامت ہوتی جاتی ہے


بہ ایں حالات مایوسی بہ ایں اوصاف محرومی
محبت ہے کہ محتاج محبت ہوتی جاتی ہے


زباں سی لیں ترے کہنے سے لیکن اس کو کیا کیجے
شکایت جب نہیں ہوتی حکایت ہوتی جاتی ہے


ہے میرا عشق یک در گیر محکم گیر سے بالا
مری نظروں میں دنیا خوب صورت ہوتی جاتی ہے


ارے توبہ گناہوں کے سیہ خوابوں سے بیداری
کہ آنکھیں کھلتی جاتی ہیں ندامت ہوتی جاتی ہے


یوں ہی تجدید پیمان وفا کیجے مرے ہم دم
بڑی آسان تشریح محبت ہوتی جاتی ہے


محبت رفتہ رفتہ ڈھل رہی ہے وضع داری میں
یہ کس رفتار سے برپا قیامت ہوتی جاتی ہے


جسے تصویر کہنا کفر ہے آئین الفت میں
وہی تنویر معبود محبت ہوتی جاتی ہے


مآل رنج و راحت دیکھتا جاتا ہے دل جتنا
تمنا ماورائے رنج و راحت ہوتی جاتی ہے


نہ ہو میرے نہ تم مجھ کو کسی کا ہونے دیتے ہو
قیامت کیا یہ بالائے قیامت ہوتی جاتی ہے


بحمد اللہ میں احسانؔ اس منزل پہ آ پہنچا
مصیبت جب نہیں ہوتی مصیبت ہوتی جاتی ہے