ہوا جب ٹوٹنا ابتر نوا بے سود شیشے کا
ہوا جب ٹوٹنا ابتر نوا بے سود شیشے کا
اٹھا شہر قضا میں مدعا نا بود شیشے کا
کہ بس بادہ کشی مطلب تواں ہر جا ہے شیشے کی
تھا کب مرغوب تھا ادراک یاں مردود شیشے کا
نفس مرگ نفس ہوتا ہے جوں شیشے کی خلقت میں
اثر بے لوث ہوتا ہے جدھر محدود شیشے کا
کسو خالق کا دعویٰ کر گیا پھر مر گیا انساں
خدائی کر نہیں سکتا کبھی نمرود شیشے کا
عبارت منتقل رہتی ہے پھر پروردگاراں سے
کہیں بت ہے تو پتھر کا کہیں معبود شیشے کا
ابانؔ کو تم کہو انساں کہو انساں کو تم شیشہ
کہو موجود انساں تو کہو موجود شیشے کا