کوئی غزل سناؤ کہ نیند آ جائے: اچھی نیند کے لیے شاعر کی ضرورت ہے یا ڈاکٹر کی؟

رات کا خیال آتے ہی جہاں ایک طرف گھمبیرتا اور گہری تاریکی کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے تو دوسری طرف نیند  آرام و سکون کی علامت بن کر ہمارے گمان کے پردے پر ابھر آتی ہے۔نیند جو ایک استعارہ ہے، حیات و ممات کے درمیان عالم برزخ کا۔۔۔ جو ایک بھید ہے ۔۔۔ اک راز ہے۔۔۔ ایک راستہ ہے خوابوں کے نامعلوم جزیروں کا ۔۔۔ نیند اگرچہ پہیلی ہے ۔۔۔ مگر اپنی تمام تر پراسراریتوں کے باوجود ۔۔۔ آنکھوں کی ایک سہیلی ہے۔

محبت کا آنکھوں سے گہرا تعلق ہےاور آنکھوں کا نیند سے۔ شاید اسی لیے محبتوں کے راہی اکثر نیند کے متلاشی ہی نظر آتے ہیں۔ کہیں ہمیں غالب یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ

 موت کا ایک دن معین ہے

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

اور۔۔۔ کہیں اکبر یوں اپنی اذیتوں کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں :

وصل ہو یا فراق ہو اکبر

جاگنا رات بھر مصیبت ہے

کبھی شیخ ظہور الدین حاتم نیند نہ آنے کو یوں محبوب کے انتظار سے جوڑتے ہیں۔

مدت سے خواب میں بھی نہیں نیند کا خیال

حیرت میں ہوں یہ کس کا مجھے انتظار ہے

 کبھی بخش لائل پوری نیند کی کمیابی کا الزام خوابوں کی چوری کو دیتے ہیں :

ہمارے خواب چوری ہو گئے ہیں

 ہمیں راتوں کو نیند آتی نہیں ہے

اور بعض سرپھرے تو نیند جیسی قیمتی شے کے بھی تصور جاناں کی راہ میں حائل ہونے پر بے چین ہو جاتے ہیں ۔ نجانے یہ کس کا شعر ہے :

شام سے ان کے تصور کا نشہ تھا اتنا

نیند آتی ہے تو آنکھوں نے برا مانا ہے

یہ تمام شاعرانہ خیالات اور تصورات اپنی جگہ لیکن اس حقیقت سے مفر نہیں کہ جیسے کھانا پینا اور سانس لینا لوازمات زندگی ہیں ۔۔۔ اسی طرح سونا بھی زندہ رہنے کے لیے بہت ضروری ہے۔۔۔ وہ جو کہتے ہیں کہ نیند تو تختہ دار پہ بھی آجاتی ہے، تو بجا کہتے ہیں کہ جب تک جینے کی امید ہے۔۔۔ تب تک لازم نیند ہے !

جدید سائنسی تحقیقات نے نیند کی افادیت اور اہمیت جو پہلے بھی کسی سے پوشیدہ نہ تھی، اسے اور واضح کر دیا ہے۔ میتھیو واکر نے اپنی تصنیف "Why we sleep" میں نیند کی اہمیت اور ضرورت پر سائنسی حقائق کی روشنی میں بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے. اس کتاب کے مطالعہ کے بعد نیند کے بارے میں مندرجہ ذیل حقائق ہم پر آشکار ہوتے ہیں :

امید اور نا امیدی کے درمیان نیند ایک پْل کا کام کرتی ہے۔ ایک مناسب دورانیہ کی نیند کے ذریعے ہمہ وقت یاس کی کیفیت کو  امید کے احساس میں بدل سکتے ہیں۔

نیند کی کمی خواہ وہ بہت تھوڑی مقدار میں ہی ہو، لیکن مسلسل ایک ہفتے تک اگر رہے، تو یہ ہمارے خون میں شوگر کے لیول کو اتنا متاثر کرسکتی ہے کہ یہ بالآخر پری شوگر پر منتج ہو سکتی ہے۔

 مختصر نیند (Short nap) خواہ وہ محض بیس منٹ کے دورانیے کی ہو ، ہماری کارکردگی میں 34 فیصد اضافہ کر دیتی ہے۔

رات میں چھ گھنٹے سے کم سونے کی عادت ہمارے مدافعتی نظام کو اس قدر تباہ کر دیتی ہے کہ ہمارے کینسر کے شکار ہونے کے امکانات دوگنا ہو جاتے ہیں.

یہ امر بھی حیرت انگیز ہے کہ منشیات اور شراب وغیرہ کے استعمال سے ہونے والے سڑک کے حادثات سے ان حادثات کی تعداد کہیں زیادہ ہے، جو نیند کی کمی کی وجہ سے ہوتے ہیں ۔

نیند کی کمی ہمارے دماغ کو محض منفی موڈ میں نہیں لے کر جاتی بلکہ نیند کی کمی کے شکار انسان کا موڈ منفی سے مثبت اور مثبت سے منفی رویوں کے درمیان جھولتا رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے شدت پسندانہ خیالات اور رویے انسان کی شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں۔

ایک رات کی بے خوابی خوراک اور ورزش کے ایک دن کے ناغے سے زیادہ تباہ کن ہیں۔

8۔ پینتالیس  سال سے زیادہ عمر کے حامل افراد اگر چھ گھنٹے سے کم نیند لینے کی عادت میں مبتلا ہوجائیں تو ان کو ہارٹ اٹیک ہونے کے امکانات  200 فیصد ہو جاتے ہیں۔

امید ہے کہ یہ تمام حقائق نظر سے گزرنے کے بعد آپ کو چاہے محشر عنایتی سے غزل سنانے کی درخواست کر کے ہی نیند کا سامان کرنا پڑے ، آپ نیند پوری کرنے سے کبھی لاپرواہی نہیں برتیں گے :

بڑی طویل ہے محشر کسی کے ہجر کی بات

کوئی غزل ہی سناؤ کہ نیند آ جائے !!!