ہوتا رہا فراق میں لاغر تمام رات
ہوتا رہا فراق میں لاغر تمام رات
ہاتھوں سے اٹھ سکا بھی نہ ساغر تمام رات
بدلیں شب فراق میں کچھ اتنی کروٹیں
آئے ہیں یاد دیس کے مچھر تمام رات
بڑھنے دو سوز عشق میں یہ دل کی دھڑکنیں
جلتے رہیں یہ آگ کے ہیٹر تمام رات
وہ باندھتے رہے میں اسے کھولتا رہا
بچھ ہی سکا نہ ڈھنگ سے بستر تمام رات
کشمیر کے حوالے سے خواب و خیال میں
اگتے رہے ہیں سرو و صنوبر تمام رات
بلبلؔ کسی حسین پہ یوں دل مچل گیا
ناچا ہو جیسے صحن میں بندر تمام رات