ہوتا ہے مہربان کہاں پر خدائے عشق
ہوتا ہے مہربان کہاں پر خدائے عشق
لگتی ہے پھر بھی شہر میں کھل کے صدائے عشق
نکتہ یہی ازل سے پڑھایا گیا ہمیں
حوا برائے حسن ہے آدم برائے عشق
دنیا ہمارے ہاتھ میں ہے گیند کی طرح
ہم کر رہے ہیں زندگی جب سے برائے عشق
بیٹھے ہیں مثل یار ہوئے خود کے روبرو
ملتی نہیں ہر ایک کو ایسی عطائے عشق
دیتا ہوں سارے شہر میں بس ایک ہی صدا
درویش دے گا خیر میں سب کو دعائے عشق
موسیٰ کو سمت طور جو اک موج لے گئی
وہ انتہائے شوق تھی یا ابتدائے عشق
دنیا کی جستجو تو ہوئی ختم کب کی دوست
مرشد ہمارا عشق ہے ہم ہیں گدائے عشق