ہو شوق پرخلوص تو مانع نہیں حدود
ہو شوق پرخلوص تو مانع نہیں حدود
دریا رواں دواں ہے کناروں کے باوجود
ہے دیدنی فراست حاضر کی یہ نمود
اجسام تیز گام ہیں اور روح پر جمود
کب کھل سکا ہے عقل پہ یہ راز ہست و بود
فکر و نظر کے ساتھ ہیں احساس کے قیود
آزادیاں وہ سخت ہیں زنداں کی قید سے
جن میں نگاہ و فکر پہ ہوں سیکڑوں قیود
تو جان زندگی ہے تو عنوان زندگی
تیری ہی جلوہ گاہ ہے کیا غیب کیا شہود
رندان مے کدہ بھی ہوئے مصلحت شناس
اب بن گیا ہے مے کدہ بزم زیان و سود
یاران میکدہ کی سیاست نہ پوچھئے
خطرے میں پڑ گیا ہے خود انسان کا وجود