ہو خاک تسکیں کہ موت کے بعد اک نئی زندگی ملے گی

ہو خاک تسکیں کہ موت کے بعد اک نئی زندگی ملے گی
ابھی سے گویا یہ فرض کر لوں کہ پھر مصیبت وہی ملے گی


میں عقل کی راہ پر نہ چلتا اگر مجھے اس کا علم ہوتا
کہ صبح ہر آگہی سے پیوستہ شام نا آگہی ملے گی


ریاض عالم میں تجھ کو اے دل جو آرزوئے شگفتگی ہے
کلی کو جیسے پس شگفتن ملی ہے پژمردگی ملے گی


یہ نو بہ نو ظلمتیں کہ جس میں بھٹکتی پھرتی ہے آدمیت
چھٹیں گی کب اے خدائے برتر کب اس کو پھر روشنی ملے گی


ہجوم افکار شام غربت بجھا ہوا دل ملال ہجرت
کنار جمنا ہو لاکھ دل کش تلکؔ ہمیں کیا خوشی ملے گی