ہو کے اس چشم مے پرست سے مست

ہو کے اس چشم مے پرست سے مست
کیا الجھتا ہے آج مست سے مست


ایک ہی لغزش اور گزر بھی گئے
عقل کے ہر بلند و پست سے مست


کون نظروں میں اب سمائے کہ ہم
ہیں تری چشم مست مست سے مست


اس گلستاں میں پینے آئے ہیں
ہر گل سا نگیں بدست سے مست


سب ہیں آغوش ہوش میں امجدؔ
ایک ہی ہوں دم الست سے مست