ہو جدا اے چارہ گر ہے مجھ کو آزار فراق
ہو جدا اے چارہ گر ہے مجھ کو آزار فراق
بے وصال اچھا ہوا بھی کوئی بیمار فراق
شوخیٔ پردہ نشیں کی عشوہ سازی دیکھنا
دل ہے بدمست وصال اور دیدہ بیدار فراق
ایک نالے میں پھرے گا مہر و مہ کو ڈھونڈھتا
اے فلک مت چھیڑ مجھ کو ہوں عزا دار فراق
وصل تھی میری سزا ہجر انتقام غیر تھا
کب ہوا خو کردۂ ہجراں گرفتار فراق
کوئی کرتا ہے خطا اور کوئی پاتا ہے سزا
غیر گستاخ وصال اور میں سزاوار فراق
دم بہ دم بجلی گرے یا نہر خوں جاری رہے
التیام اس سینے کا کیا جو ہے افگار فراق
آنکھ کب لگتی ہے حیلے سے جو تجھ سے لگ گئی
داستان وصل کب سنتا ہے بیدار فراق
دام میں صیاد کے کیوں کہ نہ بلبل مر رہے
دامن ہر برگ گل میں تھا نہاں خار فراق
سو بہار آئے مگر جاتا ہے کوئی داغ دل
لالہ و گل کا نہیں مشتاق خوں بار فراق
اب قلقؔ ٹھوکر سے تیری جی چکا مرنے کے بعد
آشنائے وصل کب ہو ناز بردار فراق