ہو گئی آواز سستی اور مہنگا شور ہے
ہو گئی آواز سستی اور مہنگا شور ہے
بات بیٹھی ہے سکڑ کر اور پھیلا شور ہے
یہ ترا ہے یہ مرا ہے اور وہ اس کا شور ہے
ٹکڑے ٹکڑے دنیا نے ٹکڑوں میں بانٹا شور ہے
لال ہو نیلا ہو نارنگی ہو یا پھر ہو ہرا
رنگ الگ خود غرضی کے پر سب کا اک سا شور ہے
یہ سیاست کی دکانوں میں مسلسل بکتا ہے
مذہبوں کا ختم ہو تو سرحدوں کا شور ہے
اب وہ منبر ہے ہمارا جو تمہارا تھا کبھی
تب تمہارا شور تھا تو اب ہمارا شور ہے
شور سے باہر کے اکتا کے ہم اندر آ گئے
پر ہمیں کیا تھی خبر اندر زیادہ شور ہے
چیخ کے چلا کے رو رو کے یہ چپ ہو جاتا ہے
جس کی کوئی نہ سنے اک ایسا بچہ شور ہے