ہو چکی ہجرت تو پھر کیا فرض ہے گھر دیکھنا

ہو چکی ہجرت تو پھر کیا فرض ہے گھر دیکھنا
اپنی فطرت میں نہیں پیچھے پلٹ کر دیکھنا


اب وہ برگد ہے نہ وہ پنگھٹ نہ اب وہ گوپیاں
ایسے پس منظر میں کیا گاؤں کا منظر دیکھنا


جادۂ گل کی مسافت ہی نہیں ہے زندگی
زندگی کرنا ہے انگاروں پہ چل کر دیکھنا


اپنے مخلص دوستوں پر وار میں کیسے کروں
کوئی دشمن سامنے آئے تو جوہر دیکھنا


پیاس ہونٹوں پر لیے بیٹھا ہوں ساحل پر مگر
ضد پہ آ جاؤں تو کوزے میں سمندر دیکھنا


کھڑکیاں کھلتے ہی ہم ہوں گے نشانہ وقت کا
زخم سینے پر سجانا ہو تو باہر دیکھنا


میرے ہاتھوں کی لکیروں میں ہے گردش وقت کی
میری قسمت ہی میں لکھا تھا یہ چکر دیکھنا


زندگی بھر ٹھوکریں کھانے سے بہتر ہے ظفرؔ
راستہ چلتے ہوئے رستے کے پتھر دیکھنا