حصار ذات سے نکلا تو پھر سنبھل نہ سکا
حصار ذات سے نکلا تو پھر سنبھل نہ سکا
انا کے بوجھ سے بیساکھیوں پہ چل نہ سکا
سمٹ گئی جو بساط طرب ہے تیرے بعد
نشاط محفل یاراں میں جی بہل نہ سکا
مسافران رہ شوق یہ بھی یاد رہے
طلسم ہوش ربا سے کوئی نکل نہ سکا
تمام شورش دوراں تمام رنگ نشاط
میں سنگ و خشت میں خود کو مگر بدل نہ سکا
ندیمؔ کام نہ آئی وہ نصح خیر خہاں
میں کج کلاہ زمانے کے ساتھ چل نہ سکا