ہندو مسلم

قیامت کی گھڑی ہے انقلابی صور بجتے ہیں
کہیں بجلی کڑکتی ہے کہیں بادل گرجتے ہیں


جو حوریں خیر و شر کی لڑتی آئی ہیں وہ لڑتی ہیں
تمدن کانپتا ہے امتیں بنتی بگڑتی ہیں


پرانی سطوتوں کی بارگاہیں ہیں تزلزل میں
نیا دور آ رہا ہے اب زمانہ کے تسلسل میں


وہ روٹھے منتے جاتے ہیں جنہیں مننا نہ آتا تھا
وہ بگڑے بن گئے آخر جنہیں بننا نہ آتا تھا


مگر ہندوستاں ہندوستاں ہندوستاں ہے ہے
زمیں اس کی نہ بدلی اور نہ بدلا آسمان ہے ہے


فرشتے ہر سحر روتے ہیں اس کی بد نصیبی پر
بھرے کنبے کی ماں ماتم کرے اپنی غریبی پر


کوئی ہے مادر بے کس کا حق پہچاننے والا
بہت ہیں جاننے والے کوئی ہے ماننے والا


کوئی ہے جو جگر کی آگ سے شب کو سحر کر دے
کوئی ہے ہندو مسلم کو کہ جو شیر و شکر کر دے


کوئی ہے اس نیستاں کو جو پھر گلشن بنا ڈالے
کوئی ہے جو خس و خاشاک کو یکسر جلا ڈالے


کوئی ہے جو نوائے عشق سے محفل کو گرما دے
کوئی ہے جو وفا کی ہوک سے سینوں کو برما دے


کوئی پھر اکبر و نانک کی روحوں کو جگا دیتا
کبیر و جائسی کے راگ پھر کوئی سنا دیتا


وہ دن بھی تھا کبھی اور آج یہ دن ہے کہ آپس میں
ہے ایسی روز افزوں پھوٹ جو آتی نہیں بس میں


یہ کیوں ہے اس کو سوچا بھی کبھی اے سوچنے والے
پڑے کیوں اپنے ہاتھوں ہم کو اپنی جان کے لالے


نظر کا زاویہ بدلا تو دل بدلے نظر بدلی
ہمارا ہی جو رخ بدلا تو شب بدلی سحر بدلی


ہمیں پھر اپنے مستقبل کے روکھ کو موڑ سکتے ہیں
ہمیں اپنی بنائی سرحدوں کو توڑ سکتے ہیں


جوانو آؤ اپنی غیرتوں کو مل کے للکاریں
انہیں ڈھا دیں کھڑی ہیں آج جو نفرت کی دیواریں