ہندوستانی فکر و فلسفہ اور اردو غزل
بظاہر غزل اور فلسفے کا ربط عجیب سا معلوم ہوتا ہے۔ غزل خالص جمالیاتی شاعری ہے جو جذبے اور وجدان کے پروں سے اڑتی ہے، یہ بیان ہے وارداتوں اور حسن وعشق کی گھاتوں کا۔ عشق اور عقل دو متضاد قوتیں ہیں۔ چنانچہ عشقیہ شاعری میں بظاہر فلسفے کی باتوں کے لیے گنجائش نہ ہونا چاہیے۔ لیکن اصلیت اس کے برعکس ہے۔ وہ اس لیے کہ غزل کا شاعر اکثر شعری منطق کو بروئےکار لاتا ہے اور کسی نہ کسی طرح اپنے احساسات کو ان معقولات کے تحت لانا چاہتا ہے جن کا اثر اس نے مذہب اور تہذیب سے قبول کیا ہے۔ دوسرے یہ کہ غزل کی زبان رمزواشارہ ہے اور وجدانی و روحانی مسائل چونکہ رمزواشارہ کے سوائے کسی دوسری زبان میں ادا ہو ہی نہیں سکتے، اس لیے غزل میں حیات اور کائنات کے بنیادی مسائل پر غور کرنے کی روایت شروع سے ملتی ہے۔رہی یہ بات کہ اردو غزل ہندوستانی فکر و فلسفے سے کہاں تک متاثر ہے تو اسے وہ لوگ اہمیت نہیں دیں گے جو ادب کا مطالعہ اس کے فکری سرچشموں سے ہٹ کر کرتے ہیں یا جو ادب کے تہذیبی محرکات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ وہ کہیں گے کہ اردو میں غزل فارسی سے آئی اور نہ صرف ساخت اور ہیئتی ڈھانچہ بلکہ موضوعات بھی وہیں سے آئے۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اردو زبان ہندوؤں اور مسلمانوں کے اشتراک سے وجود میں آئی اور اس کی پشت پر جو تصور ہے وہ ملی جلی تہذیب کا ہے۔ خود اردو زبان اسی گنگا جمنی اشتراک کی نشانی ہے اور جب لسانی ساخت ہی اشتراک و اختلاف پر مبنی ہے تو فکریات میں یہ اثر کیوں کر نہ آئےگا۔اردو کی دوسری اصناف کی طرح مشترک تہذیب کا اثر غزل نے بھی قبول کیا ہے۔ غزل نے بھلے ہی ویدانت یااپنشدوں کے فلسفے سے براہ راست کوئی اثر نہ لیا ہو، لیکن یہ اثرات غزل تک تصوف کے وجودی فلسفے کے ذریعے پہنچے، جس میں ہندوستانی اور اسلامی نظریات کا جوہر گھل مل کے ایک ہو گیا تھا۔اردو غزل نے جس سماج میں آنکھ کھولی اس میں ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کے عقلی نظریات کارفرما تھے۔ دنیاکے اکثر مذہبوں کی طرح ہندو مذہب اور اسلام دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ اصل ہستی یاذات واجب الوجود صرف ایک ہے لیکن جب اس ذات واحدکی علمی اصطلاحوں میں تعبیر کی جاتی ہے اور اس کے اور کائنات کے باہمی تعلق کا پتہ چلانے کی کوشش کی جاتی ہے تو ذات باری کے دومختلف تصورات حاصل ہوتے ہیں۔اپنشدوں کی رو سے اصل ہستی ’’برہمہ‘‘ یعنی خدائے مطلق ہے جس تک عقل وادراک کی رسائی نہیں۔ برہمہ ہر قسم کی صفات سے بالا تر ہے۔ وہ موضوع کلی ہے۔ اس کے دو پہلو ہیں، آتما اور کائنات یعنی پرش اور پراکرتی۔ برہمہ، آتما اور کائنات ان تینوں میں ایک ہی بنیادی رشتہ ہے۔ ان کا فرق جو ہمیں عالم رنگ وبو کی کثرت میں نظر آتا ہے محض اعتباری ہے، اصل نہیں۔ حقیقت ایک ہی ہے جو ہر جگہ اور ہر کہیں موجود ہے، سوائے اس حقیقت کے جو کچھ نظر آتا ہے وہ ’’مایا‘‘ ہے یعنی فریب حواس ہے اور طلسم خیال۔اسلام خدا کا تصور ذات واحد کی حیثیت سے کرتا ہے۔ خدا کو یہاں بھی تعینات سے بری قرار دیا گیا ہے، مگر اس حد تک نہیں کہ اس کا کوئی تصور ہی قائم نہ ہو سکے۔ قرآن شریف کی رو سے ذات باری اور کائنات میں خالق اور مخلوق کی نسبت ہے۔ خدانے کائنات کو اپنے خاص ارادے سے پیدا کیا ہے چنانچہ کائنات ’’طلسم خیال‘‘ یا ’’فریب نظر‘‘ یاواہمہ (یعنی مایا) نہیں، بلکہ ٹھوس حقیقت ہے۔غرض اسلامی اور ہندوستانی نظریوں میں فرق ہے۔ ایک ذات واحد کو کائنات میں جاری و ساری بتاتا ہے۔ دوسرااس کے برعکس صفات کو ذات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایک دنیا کو فریب نظر کہتا ہے دوسرا اسے ٹھوس اصلیت قرار دیتا ہے۔ اسلام میں روحانی ماورائیت اور کائنات کے فریب حواس ہونے کے خیالات تصوف کے ذریعے داخل ہوئے اور تصوف کے بارے میں اتناا شارہ پہلے کیا جاچکا ہے کہ اس میں اور ویدانتی فلسفے میں گہری مشابہت ہے۔روحانی ماورائیت کے نظریے کو تصوف کی اصطلاح میں ’’وحدت وجود‘‘ یا ’’ہمہ اوست‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی رو سے ذات باری کائنات کی ہر شے میں جاری وساری ہے مگر ’’وحدت شہود‘‘ یا ’’ہمہ از اوست‘‘ کی رو سے کائنات مظہر ذات ہے لیکن عین ذات نہیں۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ ہندوستان میں زیادہ مقبولیت پہلے نظریے یعنی وحدت وجود ہی کو حاصل ہوئی کیونکہ اس میں اور ہندوستانی فلسفے میں روحانی ماورائیت کے خیالات قدر مشترک کی حیثیت رکھتے ہیں۔عہد وسطیٰ میں نظریہ وحدت وجود کے قبول عام کا یہ عالم تھا کہ مذہب، اخلاق، تہذیب، علمیت، قابلیت، شعروادب، شاید ہی زندگی کا کوئی شعبہ ہو جو اس سے متاثر نہ ہوا ہو۔ اردو غزل میں ’’روحانی ماورائیت‘‘ کے ان خیالات نے رفتہ رفتہ ایک باقاعدہ موضوع کی حثییت اختیار کر لی۔ غزل میں چونکہ عقلی نظریات کو بھی تاثرات کے پیرائے میں بیان کیا جاتا ہے، اس میں وجودی تصورات بے حد رنگا رنگ صورتیں اختیار کر گئے ہیں۔ اس سلسلے میں اگرچہ غزل کے صحیح رجحانات کا پتہ چلانا آسان نہیں اور شاعری کے بارے میں قطعیت مناسب نہیں، تاہم غزل میں بعض مضامین اور خیالات کی فکروتعمیم سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اردو غزل کا میلان وحدت وجود کے انہیں نظریات کی طرف رہاہے جو کثرت میں وحدت دیکھنے کی ہندوستانی ذہن کی خصوصیت خاصہ سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں۔ یہ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔ولیعیاں ہے ہر طرف عالم میں حسن بے حجاب اس کابغیر از دیدۂ حیراں نہیں جگ میں نقاب اس کاہواہے مجھ پہ شمع بزم یک رنگی سوں یو روشنکہ ہر ذرہ اُپر تاباں ہے دائم آفتاب اس کاشاہ عالم آفتابواحد ہے لاشریک تو ثانی ترا کہاںعالم ہے سب کے حال کا تو ظاہرونہاںظاہر میں تو اگرچہ نظر آتا ہے نہیںدیکھا جو میں نے غور سے تو ہے جہاں تہاںسودااس قدر سادہ و پرکار کہیں دیکھا ہےبے نمود اتنا نمودار کہیں دیکھا ہےمیر تقی میرؔ کایہ شعر دیکھیے، کوئی ویدانتی بھی اس سے بڑھ کر کیا کہےگا، آنکھیں جو ہوں تو عین ہے مقصود ہر جگہبالذات ہے جہاں میں وہ موجود ہر جگہمیر ہی کے چند اور شعر ملاحظہ ہوں، تھا وہ تو رشک حور بہشتی ہمیں میں میرسمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنی قصور تھاعام ہے یار کی تجلی میرخاص موسیٰ وکوہ طور نہیںگل ورنگ وبہار پردے میںہر عیاں میں ہے وہ نہاں ٹک سوچقائم چاند پوریجلوہ کس جاپہ نہیں اس بت ہر جائی کایہ پریشاں نظری جرم ہے بینائی کاخواجہ میر درد خواہ اپنے مسلک کو کچھ نام دیں، ان کے یہاں بھی ماورائی تصورات کے یہی خیالات ملتے ہیں، جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھاتو ہی آیا نظر جدھر دیکھاجان سے ہو گئے بدن خالیجس طرف تو نے آنکھ بھر دیکھاہے غلط گر گمان میں کچھ ہےتجھ سوابھی جہان میں کچھ ہےدل بھی تیرا ہی ڈھنگ سیکھا ہےآن میں کچھ ہے آن میں کچھ ہےان دنوں کچھ عجب ہے میرا حالدیکھتا کچھ ہوں دھپان میں کچھ ہےایک اور شعر میں فرماتے ہیں، ڈھونڈے ہے تجھے تمام عالمہر چند کہ تو کہاں نہیں ہےشاہ نیاز بریلوی کی یہ پوری غزل ہمہ اوست کی تخلیقی تشکیل ہے، دید اپنے کی تھی اے خواہشاس کو ہر طرح سے بنا دیکھاصورت گل میں کھل کھلاکے ہنساشکل بلبل میں چہچہا دیکھاشمع ہوکر کے اور پروانہآپ کو آپ میں جلا دیکھاکرکے دعویٰ کہیں انا الحق کابرسردار وہ کھچا دیکھاکہیں وہ درلباس معشوقاںبرسر ناز او ر ادا دیکھاکہیں عاشق نیاز کی صورتسینہ بریاں ودل جلا دیکھااس سلسلے میں دو شعر غالب کے بھی ملاحظہ فرمائیے، دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیںہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیںہے تجلی تری سامان وجودذرہ بے پر توخورشید نہیںان اشعار میں بار بار کہا گیا ہے کہ عالم رنگ وبو کی کثرت صفاتی ہے یا اعتباری۔ اس کی اصلیت وہی وحدت ہے جو کائنات کے ذرے ذرے میں جاری و ساری ہے۔ چنانچہ ماورائی تصورات کی وجہ سے بھی اردوغزل میں تنگ نظری اور تعصب کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ رواداری کے رجحانات ہندوستان کی وحدت آموز فضا میں صدیوں سے موجود رہے ہیں۔ اسلامی وجودی فلسفے میں بھی مذہب کے ظواہر کی بہ نسبت اس کی باطنی روح پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ یہ باطنی روح چونکہ تمام مذہبوں میں یکساں ہے، اس لیے تصوف کے اثر سے اردو غزل میں باہمی اشتراک اور رواداری کی قوتوں کو خاصا فروغ حاصل ہوا۔ہمارے شاعروں نے ان مذہبی ظاہر داریوں کی ہمیشہ مذمت کی ہے جو دلوں میں دوری پیدا کرتی ہیں اور انسان کو انسان سے جدا کرتی ہیں۔ اردو غزل اس وحدت پر زور دیتی ہے جو تمام مذہبوں کی بنیاد ہے۔ مسلمان کا خدا اور ہندو کا برہمہ الگ نہیں۔ مسجد ہو یا مندر، کعبہ ہویا کلیسا، ہر جگہ ایک ہی وحدت کارفرما ہے۔ اردو غزل میں یہ رجحان رسمی یا روایتی نہیں بلکہ اس کی پشت پر صدیوں کی مشترک تہذیبی قوتوں کا ہاتھ رہا ہے۔محمد قلی قطب شاہمیں نہ جانوں کعبہ وبت خانہ ومے خانہ کوںدیکھیا ہوں ہر کہاں دستا ہے تجھ مکھ کا صفاشاہ حاتمیہ کس مذہب میں اور مشرب میں ہے ہندو مسلمانوخدا کو چھوڑ دل میں الفت دیر وحرم رکھناسودابہکےگا تو سن کے سخن شیخ وبرہمنرہتا ہے کوئی دیر میں اور کوئی حرم میںمیرنے کیا خوب کہا ہے، دیر وحرم کو دیکھا اللہ رے فضولییہ کیا ضرور تھا جب دل سا مکاں بنایاگوش کو ہوش کے ٹک کھول کے سن شور جہاںسب کی آواز کے پردے میں سخن ساز ہے ایکذوقکیسا مومن کیسا کافر کون ہے صوفی کیسا رندبشر ہیں سارے بندے حق کے سارے جھگڑے شر کے ہیںملاحظہ ہو غالبؔ کس اعتماد سے کہتے ہیں، دیر وحرم آئینہ تکرار تمناواماندگی شوق تراشے ہے پناہیںوفاداری بہ شرط استواری اصل ایماں ہےمرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑوبرہمن کوہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسومملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیںغرض اردو غزل کے یہ تصورات ہندوستانی فکروفلسفے سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں۔ اردوغزل میں یہ تصوف کے ذریعے سے آئے۔ خود تصوف میں مسلمانوں کے ہندوستان آنے سے پہلے ویدانتی نظریات سے ملے جلے یہ وجودی خیالات جڑ پکڑ چکے تھے۔ مسلمانوں کے ساتھ جب یہ نظریات ہندوستان آئے تو چونکہ ہندوستانی مزاج سے مناسبت رکھتے تھے، یہاں بہت مقبول ہوئے اور اردو غزل نے بھی انہیں قائم رکھنے اور فروغ دینے میں پورا پورا حصہ لیا۔