ہندوستان کی جنگ آزادی میں اردو کا حصہ

آج کچھ حلقوں میں یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ اردو کا سارا سرمایہ بدیسی ہے، اس کے ادیبوں اور شاعروں کی نگاہیں وطن کے بجائے بیرونی ممالک پر لگی ہوتی ہیں۔ اس کے لکھنے اور پڑھنے والے ہندوستان سے محبت نہیں رکھتے، انھوں نے ہندوستان کی جنگ آزادی میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ جب ملک میں اس سرے سے اس سرے تک آگ لگی ہوتی تھی تو یہ لوگ گھر میں بیٹھے بانسری بجا رہے تھے۔ انھوں نے ہندوستان کے تمام باشندوں کو وحدت کے ایک رشتے میں پرونے کے بجائے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنائے رکھی۔ ان کے افسانوں، نظموں، ڈراموں، اور مضامین میں ایران، توران، روس، چین، سب کچھ ملے گا مگر ہندوستان کہیں نظر نہیں آتا۔


اس میں جو کچھ ہے ایک فرقے کا ہے، اس کا رسم الخط ناقص، اس کی شاعری غیر فطری، اس کی تاریخ فرقہ وارانہ ذہنیت کی آئینہ دار، اس کی تہذیب شعری اور عوام سے دور۔ غرض ان لوگوں کے نزدیک اردو ادب ایک وادی بے راہ ہے جس میں ہندوستان کچھ عرصہ کے لیے بھٹک گیا تھا اور اب اسے راہ راست پرآنا اور اس لغزش کو یک قلم بھلا دینا ہے۔


جوشؔ نے پروپیگنڈا کے نام سے ایک نظم لکھی ہے، اس کے چند شعر ملاحظہ ہوں،


وہ جھوٹ بار بار جو بولا گیا ہے آج
اس وقت جس کے نام سے ہوتا ہے اختلاج


حق کی قلیل فوج سے کرتا رہے گا جنگ
بھرتا رہے گا ریب میں ربانیت کا رنگ


تا آنکہ ایک روز وہی ناسزا دروغ
حاصل کرے گا حلقہ عالم میں وہ فروغ


اس جھوٹ کو صداقت اعلیٰ کہیں گے لوگ
آفاق کی حقیقت کبریٰ کہیں گے لوگ


اس لیے یہ اندیشہ ہے کہ اردو کے خلاف جو مسلسل پروپیگنڈا ہندوستان کی سماجی و تہذیبی زندگی میں اس کے موجودہ درجے سے اسے گرانے کے لیے کیا جا رہا ہے، وہ کامیاب نہ ہو جائے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ محض اردو کا نقصان نہیں ہندوستان کی تہذیب و تاریخ کا ایک بڑا نقصان ہوگا اور اس لیے ضرورت ہے کہ لوگوں کو صحیح واقعات بتائے جائیں، حقائق سے آشنا کیا جائے اور ان میں ہماری تہذیب کی ہمہ گیری اور جامعیت پر فخر کا جذبہ پیدا ہو۔


اردو خالص ہندوستانی زبان ہے، یہ کسی کے ساتھ باہر سے نہیں آئی۔ یہ دہلی کے گرد و نواح میں پیدا ہوئی۔ گر یرسن کا خیال ہے کہ یہ ہریانی سے وجود میں آئی، چٹر جی کے نزدیک کھڑی بولی سے، بلاک مشہور فرانسیسی ماہر لسانیات کا خیال یہ ہے کہ دونوں کی اصل یعنی شور سینی اپ بھرنش کی ایک شکل ہے، اس کی بنیاد آریائی ہے، اسے جو غذا ملی وہ مقامی بولیوں کے علاوہ ایک آریائی زبان فارسی سے ملی۔ اس کی قدیم شاعری جس میں صوفیوں کا بڑا ہاتھ تھا، بھاشا سے بہت متاثر ہے، اس میں شروع سے ایسے بڑے شاعروں کے نام ملتے ہیں جو ہندوستان کے شاعر ہیں اور ہندوستان کی فضا پیش کرتے ہیں۔


خسرو کے علاوہ اردو کے شعرا میں محمد قلی قطب شاہؔ، ولیؔ، شاہ حاتمؔ، میرؔ، سوداؔ، میر حسنؔ، انشاؔ، نظیرؔ، انیس کو ہندوستان کے پس منظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ان شعرا کے یہاں ہندوستان کے مناظر، رسم و رواج، طرز معاشرت، تاریخ، دیومالا، قصے کہانیاں، استعارات، علامات، سب کچھ ہیں۔ نظیرؔ اور انیسؔ تو ان شعرا میں سے ہیں جو باوجود مختلف ہوتے ہوئے ہندوستان کی تہذیب کے شاعر ہیں۔ نظیر کی نظموں میں اس تمدن اور معاشرت کی جھلک ہے جو مغلیہ سلطنت کا سب سے گراں قدر تحفہ ہے۔ انیس کے مرثیے عربی مزاج سے زیادہ لکھنوی تہذیب کے نمایندے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو شاعری پر فارسی شاعری کا بہت گہرا اثر ہے لیکن انگریزی شاعری پر یونانی اور لاطینی کا اس سے بھی گہرا اثر ہے۔ اردو میں تقریباً تین چوتھائی الفاظ وہ ہیں جو یا تو مقامی ہیں یا بیرونی الفاظ ہیں، تبدیلی کر کے ان کو اپنا لیا گیا ہے۔ خالص بیرونی الفاظ یا تت سم کی تعداد نسبتاً بہت کم ہے۔


کہا جاتا ہے کہ آج بھی انگریزی میں ساٹھ فی صدی سے زیادہ الفاظ یونانی یا لاطینی نسبت کو ظاہر کرتے ہیں۔ مگر انگریزوں کو بھول کر بھی یہ خیال نہیں آتا کہ یہ بیرونی عنصر یک قلم خارج کر دنیا چاہیے۔ ہمارے یہاں انیسویں صدی کے شروع میں انشاؔ نے اعلان کر دیا تھا کہ ’’ہر لفظ جو اردو میں مشہور ہو گیا۔ عربی ہو یا فارسی، ترکی ہو یا سریانی، پنجابی ہو یا پوربی، از روئے اصل صحیح ہو یا غلط، وہ لفظ اردو کا لفظ ہے۔ اگر اصل کے موافق مستعمل ہے تو بھی صحیح ہے اور اگر خلاف اصل مستعمل ہے تو بھی صحیح ہے۔ اس کی صحت وغلطی اردو کے استعمال پر موقوف ہے کیونکہ جو کچھ خلاف اردو ہے، غلط ہے۔ گو اصل میں صحیح ہو اور جو کچھ موافق اردو ہے صحیح ہے گو اصل میں صحت نہ رکھتا ہو۔ یہ اردو کے آزاد اور خود مختار ہونے کا اعلان ہے۔ اردو ادب کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ہمارے شاعروں اور ادیبوں نے زبان کی اس خصوصیت کا لحاظ رکھا ہے اور جن لوگوں نے نہیں رکھا ان کو جلد یا بدیر سخت سزا دی ہے۔ ناسخؔ، دبیرؔ اور ایسے دوسرے شعرا کی آج کیا ادبی منزلت ہے اور میرؔ، نظیرؔ، حالیؔ آج کس بلندی پر ہیں اس کے واضح کرنے کی ضرورت نہیں۔


یہ مختصر تمہید اس لیے ضروری تھی کہ ہم اردو کے ہندوستانی مزاج کو مان لیں۔ اس مزاج کی خاطر آزادؔ اور حالیؔ نے جدید شاعری کے اصول اور معیار متعین کیے اور آج جس سکے پر ان بزرگوں کی مہر نہیں اسے ٹکسال باہر کیا جا سکتا ہے۔


غدر سے پہلے اس ملک کے رہنے والوں کو اپنی غلامی کا احساس پیدا نہیں ہوا تھا۔ سیاسی غلامی نے ان میں آزادی کا جذبہ ابھارا، انھیں ایک قومی وحدت کا رشتہ سمجھایا، اپنے وطن سے ایک نئی محبت سکھائی، اپنے ماضی کو ایک نئے اور شاندار رنگ سے دیکھنا سکھایا اور اس کی یاد سے مدد لے کر ایک سنہرے مستقبل کا احساس دلایا۔ چنانچہ کچھ لوگ غزلوں کی دنیا میں مست رہے مگر ان کے عاشقان پاک طینت نے عشق اور زندگی کا ایک نیا تصور دیا۔ اس کے اثر سے حالی کی مثنوی، حب وطن، اسمٰعیل کی ہندوستانی نظمیں، شوق قدوائی کی منظر نگاری، اکبر کی طنزیات، وحید الدین سلیم کے پر جوش نغمے لکھے گئے۔ یہاں تک کہ اردو شاعری میں چکبستؔ اور اقبالؔ جیسے عاشق پیدا ہوئے۔ ایک نے وطن کی مشت خاک کے بدلے بہشت لینا بھی گورا نہیں کیا، دوسرے نے خاک وطن کے ہر ذرے کو دیوتا سمجھا، کیا ہوا اگر اقبال نے جو شروع میں کہا تھا اسے بھلا دیا۔ اردو شاعری تو اسے نہیں بھلا سکتی۔


اودھ پنچ ہر نئی چیز کا مخالف تھا اور سرسید اور حالیؔ سے بہت پیچھے مگر وطن پرستی اور حریت پرستی میں کسی طرح کم نہ تھا۔ اکبر مشرقیت کے دلدادہ ہیں۔ مغربی تہذیب کو شبہ کی نظر سے دیکھتے ہیں، انھیں پوری یا چپاتی بسکٹ سے زیادہ عزیز ہے، وہ موم کی پتلیوں کے قائل نہیں، انھیں چمن ہند کی پریاں عزیز ہیں۔ مس کے لونڈر کے مقابلے میں بیگم کے عطر حنا کے دلدادہ ہیں۔ وہ مغربی تعلیم کو بازاری اور اس عقل کو سرکاری کہتے ہیں۔ وہ مغربی سیاست کے حربوں کو سمجھتے ہیں کہ کس طرح جج بنا کر اچھے اچھوں کے دل لبھا لے جاتے ہیں۔ مغربی سیاست پر ان کی یہ طنز دیکھئے،


سمجھا رہے تھے مجھ کو مکٹ کی وہ گردشیں
خود کر رہے تھے تاک کی ٹٹی میں سازشیں


نقشے میں دیکھتا تھا وہ پیتے تھے جام مئے
میں نے کہا حضور یہ مضمون عجیب ہے


ہیں خود تو مست بادہ عشرت کے خم سے آپ
الجھا رہے ہیں مجھ کو ستاروں کی دم سے آپ


اکبر نے اپنے اشعار میں متوسط طبقے کے اس نئے تعلیم یافتہ فرد کا خوب مذاق اڑایا ہے جو محض اپنے حلوے مانڈے سے کام رکھتا ہے، جو کلرکی کرتا ہے اور ڈبل روٹی کھاتا ہے۔ جن کی زندگی کا کارنامہ بی اے ہونا، نوکر ہوتا، پنشن پانا اور مر جانا ہے۔ اکبر کے اشعار سے ہندوستان میں اپنی چیزوں کی وقعت و عزت پیدا ہوئی۔ مغرب کا رعب کم ہوا، ہندوستان کی عظمت کا نقش دلوں پر قائم ہوا، وہ اگر مدخولہ گورنمنٹ نہ ہوتے تو گاندھی کی گوپیوں میں پائے جاتے، گاندھی نامہ جو حال میں شائع ہوا ہے، اس کا بین ثبوت ہے۔


پہلی جنگ عظیم میں اکبر اور شبلی دونوں سے حکومت ناراض تھی۔ اکبر کے اشعار کو باغیانہ سمجھا جاتا تھا اور شبلی کی نظم اس قدر خطرناک سمجھی گئی تھی کہ اگر وہ قید ہستی سے رہا نہ ہو جاتے تو قید فرنگ میں ہوتے،


اک جرمنی نے مجھ سے کہا از رہ غرور
آساں نہیں ہے فتح تو دشوار بھی نہیں


برطانیہ کی فوج ہے دس لاکھ سے کم
اور اس پہ لطف یہ ہے کہ تیار بھی نہیں


باقی رہا فرانس تو وہ رندلم یزل
آئیں شناس شیوۂ پیکار بھی نہیں


میں نے کہا غلط ہے تیرا دعویٰ غرور
دیوانہ تو نہیں ہے، تو ہشیار بھی نہیں


ہم لوگ اہل ہند ہیں جرمن سے دس گنے
تجھ کو تمیز اندک و بسیار بھی نہیں


سنتا رہا وہ غور سے میرا کلام اور
پھر وہ کہا جو لائق اظہار بھی نہیں


اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں


شبلی کی دور بیں نظریں انگریزوں کی سیاست کو بہت پہلے سمجھ چکی تھیں۔ ان کی نگاہوں کے سامنے علی گڑھ کی تحریک جو در اصل اردو میں عقلیت، سائنٹفک نقطۂ نظر اور عصر حاضر کی روح کو جذب کرنے کی تحریک تھی، سرکار پرستی اور مصلحت پسندی کا شکار ہو چکی تھی اور جس ادارے کو ہندوستان میں قرطبہ و بغداد کی یاد تازہ کرنی تھی وہ انگلستان کے پبلک اسکولوں کی ایک بھونڈی نقل ہو گیا تھا۔ علی گڑھ قوم کے لیے ذہنی غذا مہیا کرنے کے بجائے سرکاری دفتروں کے لیے چارہ مہیا کر رہا تھا۔ شبلی سرسید کی اس پالیسی کو آمد نہیں آورد کہتے تھے۔


سرسید نے مسلمانوں کو کانگریس سے اس وجہ سے الگ رکھنا چاہا تھا کہ تعلیمی ترقی زیادہ ضروری تھی۔ یہ بات سر سید کے زمانے میں صحیح ہو یا نہ ہو، سر سید کے جانشینوں کے زمانے میں غلط ہو چکی تھی مگر وہ اسی لکیر کو پیٹتے جا رہے تھے۔ شبلی نے جہاں ہماری زبان کی علمی تہی مائگی کو کم کیا اور بقول مہدی افادی کے ’’کل کی چھو کری کو اس قابل کر دیا کہ وہ دنیا کی بڑی ترقی یافتہ زبانوں سے آنکھیں ملا سکے۔‘‘ وہاں انھوں نے ملک کی ذہنی قیادت بھی کی۔ ان کے اثر سے محمد علی اور ابوالکلام آزاد اور سید سلیمان مذوی حریت پسندی کا پیغام لے کر آئے۔ ان کے ذریعہ سے ہمارا ادب زندگی کے مسائل کا ترجمان بھی بنا اور رہنما بھی۔


پہلی جنگ سے کچھ پہلے اردو ادب میں ادب لطیف کی تحریک شروع ہو چکی تھی۔ مخزن کا نیا احساس ایک رنگین حصار میں محدود ہو رہا تھا کہ ابوالکلام آزاد ہماری ادبی فضا میں داخل ہوئے اور انھوں نے اپنی آتش نفسی سے اردو نثر کو طوفان کا جوش اور پہاڑی چشموں کا جلال عطا کیا۔ ابو الکلام سے پہلے مذہب، سیاست، ادب سب کے خانے الگ الگ تھے۔ ابوالکلام نے مذہبی احساس کو سیاسی شعور اور سیاسی شعور کو ادبی رنگ دیا۔ الہلال نے ہندوستان کے مسلمانوں کی قیادت نوابوں، زمینداروں یا وفاداران ازلی سے چھین کر احرار کے ہاتھوں میں دے دی۔ یونیورسٹی کا مسئلہ ہو یا اصلاحات کا، عالم اسلام کا یا ہندوستانی سیاست کا۔ الہلال نے ان سب میں ایک وحدت پیدا کی۔ الہلال نے اردو نثر میں ایک مقدس سنجیدگی کو رواج دیا۔ اس نے ایشیا کو یورپ کی ذہنی غلامی سے آزاد کیا اور اس نئی مشرقیت کو جو شبلی کی تعلیم سے ابھری تھی عظمت اور استواری عطا کی۔


ابو الکلام کے بعد اردو ادب میں دوسری بڑی شخصیت محمد علی کی ہے۔ ابو الکلام نے ذہن کو آزاد کیا تھا۔ محمد علی نے دلوں کو، ابو الکلام بلندیوں کے ادیب ہیں، وہ زمین پر مشکل سے قدم رکھتے ہیں۔ وہ زمین والوں اور عوام کے دلوں پر نہ پہنچ سکتے تھے، محمد علی کی جذباتی، پر خلوص اور رنگا رنگ شخصیت میں زمین والوں کو بڑی کشش نظر آئی۔ محمد علی کے مضامین اور اشعار میں جو سوز و گداز، درد واثر ہے، وہ ان کی سیاسی زندگی کا مرہون منت ہے۔ محمد علی سے پہلے سیاست حقوق کی جنگ تھی جس میں خطرہ زیادہ نہ تھا۔ اب یہ قید و بند، دار و رسن، ظلم و جبر کے خلاف جہاد کی داستان بن گئی۔ محمد علی کئی دفعہ جیل خانے گئے اور انھوں نے اور ان کے ساتھیوں نے بڑی تکلیفیں اٹھائیں۔


اردو شاعری کی قدیم علامات، غازہ، حنا، خون جگر، ساقی و میخانہ تھیں۔ ہندوستان کی سیاسی جد و جہد، ترک مولات، تحریک خلافت، جلیاں والا باغ، رولٹ ایکٹ، جنرل ڈائر اور اصلاحات کی ایک اور قسط نے ان علامات کو ایک نیا مفہوم اور نئی زندگی دے دی۔ چکبست اور محمد علی نے انھیں جس طرح برتا ہے کسی اور نے نہیں۔ محمد علی کے یہاں حسن و عشق بھی کچھ بدلے ہوئے سے ہیں۔ ان کے حسن کے تصور میں آزادی کی دیوی کی چھوٹ صاف دکھائی دیتی ہے اور ان کے عشق میں جنگ آزادی کے سپاہی کی آن بان شامل ہے۔


دور حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد


تجھ سے مقابلے کی کسے تاب ہے ولے
میرا لہو بھی خوب ہے تیری حنا کے بعد


گر بوئے گل نہیں نہ سہی یاد گل تو ہے
صیاد لاکھ رکھے قفس کو چمن سے دور


کیا عشق نا تمام کی بتلاؤں سرگذشت
دار و رسن کا اور ابھی انتظار دیکھ


خوگر جور یہ تھوڑی سی جفا اور سہی
اس قدر ظلم پہ موقوف ہے کیا اور سہی


خاک جینا ہے اگر موت سے ڈرنا ہے یہی
ہوس زیست ہو اس درجہ تو مرنا ہے یہی


اور کس وضع کی جویاں ہیں عروسانِ بہشت
ہے کفن سرخ، شہیدوں کا سنورنا ہے یہی


یوں قید سے چھٹنے کی خوشی کس کو نہ ہوگی
پر تیرے اسیروں کی دعا اور ہی کچھ ہے


طبع آزاد اسیری میں بھی پابند نہ تھا
قید میں ہم نے اٹھائے ہیں رہائی کے مزے
جوہر


ہندوستان کی آزادی کی جد و جہد گاندھی اور علی برادران سے پہلے ایک صلح پسند، معتدل، اصلاحی تحریک تھی۔ عوام سے اسے گہرا تعلق نہ تھا۔ عوام سے تعلق، سیاسی زندگی کی تلخیوں اور ناکامیوں اور انقلابی حالات نے شاعری کو ایک نئے عشق سے معمور کر دیا۔ محمد علی کے یہاں شہید وطن کی خوں چکاں کفن کی بناؤ ہے۔ چکبست کے یہاں شروع میں لبرل تحریک کا اثر ہے مگر آخر میں ترک موالات نے ان کے یہاں یہ کیفیت پیدا کردی،


ابھرنے نہیں دیتی یہاں بے مائگی دل کی
نہیں تو کون قطرہ ہے جو دریا ہو نہیں سکتا


اب کی تو شام غم کی سیاہی کچھ اور ہے
منظور ہے تجھے مرے پروردگار کیا


جس کی قفس میں آنکھ کھلی ہو مری طرح
اس کے لیے چمن کی خزاں کیا بہار کیا


ایک ساغر بھی عنایت نہ ہوا یا در ہے
ساقیا جاتے ہیں محفل تری آباد رہے


رہے گی آب و ہوا میں خیال کی بجلی
یہ مشت خاک ہے خالی رہے رہے نہ رہے


جو مانگنا ہے ابھی مانگ لو وطن کے لیے
لہو میں پھر یہ روانی رہے رہے نہ رہے


یہ کیسی بزم ہے اور کیسے اس کے ساقی ہیں
شراب ہاتھ میں ہے اور پلا نہیں سکتے


چکبست نے محبان وطن گوکھلے، تلک، مسنر بیسنٹ وغیرہ پر جو نظمیں لکھیں ہیں وہ ہماری اردو شاعری کا ایک غیرفانی سرمایہ ہے۔ اس زمانے میں در اصل ہماری قومی شاعری وجود میں آتی ہے۔ جنگ کے بعد ہندوستان کے اس سرے سے اس سرے تک جو نظمیں لکھی گئیں، جو گیت گائے گئے، جو مضامین شائع ہوئے، جو کتابیں چھپیں، ان میں اردو شاعروں اور ادیبوں کا کارنامہ نہایت وقیع اور مہتم بالشان ہے۔ اس کے اثر سے شمالی ہند میں بچوں، جوانوں اور بوڑھوں سب کے دل میں وطن کی محبت اور آزادی کا تخیل راسخ ہوا اور یہ نقش پھر کسی طرح زایل نہ ہو سکا۔


اس تحریک نے اقبال سے خضر راہ میں مغربی جمہوریت پر طنز لکھوائی۔ اس نے پریم چند کو روحانیت، ہندوستان کے ماضی اور راجپوت تاریخ سے نکال کر زندگی، دیہات کے مناظر اور ہندوستان کی روح تک پہنچایا۔ یہاں تک کہ پریم چند کی کہانیاں اور ناول پہلی جنگ کے بعد سے ہماری سیاسی تحریک کی تاریخ بن گئی ہیں۔ پریم چند نے یوں تو سوز وطن سے لبریز کہانیاں جنگ عظیم سے پہلی ہی لکھی تھیں۔ مگر پریم چند کے فن کو حقیقت نگاری اسی تحریک نے سکھا دی۔ یہاں تک کہ اردو افسانے کو رومان سے حقیقت، خواب سے بیداری اور نشہ سے ترشی کی طرف لانے میں پریم چند کی اولیت اور ابدیت مسلم ہو جاتی ہے۔


جدید اردو نثر میں دو سب سے بڑے نام حالی اور پریم چند کے ہیں۔ دونوں کے یہاں حب وطن کا ایک گہرا احساس ہے۔ دونوں محدود وطینت کے بجائے انسانیت کا ایک تصور رکھتے ہیں۔ دونوں کے یہاں خدمت عبادت ہے۔ مگر پریم چند کے ہاتھوں ناول اور افسانے ہندوستان کے دھڑکتے ہوئے دل کی آواز بن جاتے ہیں۔ یہاں ارتعاش رنگیں اور آشوب خیال والا حسن و عشق نہیں، زندگی، انسانیت، سماجی مقاصد، معاشرتی اصلاح، قومی عروج اور آزاد روح کا حسن ہے۔ پریم چند کی پیروی میں ہمارے افسانہ نگاروں نے غلامی کے خلاف نفرت پیدا کی ہے، آزادی کا ولولہ پیدا کیا ہے، مغربی سیاست کی قلعی کھولی ہے۔ ہندوستان کے باشندوں کو قومی مقاصد کے یکجا ہونے کا سبق پڑھایا ہے۔ ابھی تک آزادی کا کوئی واضح تصور ہمارے سامنے نہ تھا۔ فرد کی آزادی، تحریر و تقریر کی آزادی، مساوات غرض وہ تمام چیزیں جو ایک نئے اور بہتر سماج کی بنیاد ڈالنے کے لیے ضروری ہیں، ترقی پسند تحریک کے ذریعہ سے سامنے آئیں اور ترقی پسند تحریک کو ہمارے ادب کی سب سے بڑی تحریک بنانے میں پریم چند کا بہت بڑا حصہ ہے۔


پریم چند پہلے اردو میں لکھتے تھے پھر ہندی میں لکھنے لگے مگر ان کا سارا لٹریچر ہمارا مشتر کہ قومی سرمایہ ہے اور اس سرمائے میں مہاتما گاندھی اور ٹالسٹائے کے تصوارت کی عظمت اور بھگت سنگھ جیسے شہیدان وطن کے خون کی رنگینی ہے۔ پریم چند کے بعد اعظم کریوی، علی عباس حسینی، مجیب، بیدی، کرشن چندر، اختر اورینوی، اختر انصاری، احمد عباس وغیرہ نے اپنے افسانوں کے ذریعہ سے آزادی کے تصور کو پھیلایا ہے۔ ہندوستان کی آزادی کی جد و جہد کو مضبوط کیا ہے۔ آزادی کو سرمایہ داروں کی آزادی کے بجائے عوام کی آزادی بنانا چاہا ہے اور آزاد ہندوستان کے لیے بعض اقتصادی، سماجی اور تہذیبی ضروریات کی طرف اشارہ کیا ہے۔


بیسویں صدی کا اردو ادب محض آزادی کے جذبے کی عکاسی پر قانع نہیں رہا۔ اس نے سماج کی رہنمائی کا کام اپنے ذمہ لے لیا۔ اقبال نے خضرراہ کے ذریعہ سے اردو میں سب سے پہلے مزدوروں کو ایک نئے دور کا پیغام سنایا اور آفتاب تازہ کے خیر مقدم کے لیے تیار کیا۔ قاضی نذر الاسلام کی نظموں کے ترجمے نے اس آفتاب تازہ کے جلوؤں کو بے نقاب کیا۔ ٹیگور کے تراجم سے ایک لطیف و نازک احساس کی تربیت ہوئی تھی، افسر میرٹھی، سیماب، ساغر، حفیظ نے گیتوں اور ہلکی پھلکی نظموں کے ذریعے سے وطن کی محبت کو عشق بنایا تھا اور اس عشق کی خاطر موت کو زندگی کہا تھا، مگر نذر الاسلام نے جذبے کو جوش اور جوش کو طوفان بنا دیا۔


اقبال اور نذر الاسلام کے بعد ہماری ادبی محفل میں جوش ؔکا ورود ہوا۔ یہ شاعر شباب کی حیثیت سے پہلے ہی مشہور تھے، ماحول کا تقاضا اوران کی شخصیت کی افتاد انھیں انقلاب کی طرف لے گئی۔ اقبال کی انقلابی شاعری ایک عالمگیر انسانیت کے تخیل اور اس تخیل کی خالص اسلامی تعبیر کی وجہ سے ہندوستان کے دل کو زیادہ نہ گرما سکی مگر جوشؔ کی انقلابی شاعری تمام تر ہندوستانی ہے۔ نعرہ شباب میں وہ مذاہب کے اس انقلاب کو جو قومیت کے تصور میں حارج ہوتا ہے، اس طرح غالب کرتے ہیں،


تیرے جھوٹے کفر و ایماں کو مٹا ڈالوںگا میں
ہڈیاں اس کفر و ایماں کی چبا ڈالوںگا میں


اک نئے مذہب کی لکھوںگا کتاب زرفشاں
ثبت ہوگا جس کے زریں نام پر ہندوستاں


ان کی نظموں میں آزادی کی بڑی حسین ورنگین تصویریں ملتی ہیں۔ وہ آزادی کے ایک لمحے کو غلامی کی حیات جاوداں سے بہتر سمجھتے ہیں۔ بغاوت میں وہ لوگوں کو اس طرح غیرت دلاتے ہیں،


اے جواں مردو! خدارا باندھ لو سر سے کفن
سر برہنہ پھر رہی ہے غیرتِ قومِ وطن


پاؤں میں تا چند زنجیر غلامی کی خراش
صرف اک جنبش ابھی ہوتی ہیں کڑیاں پاش پاش


آثار انقلاب اور شکست زنداں کا خواب میں وہ مستی گفتار کے بجائے مستی کردار کا پیام دیتے ہیں۔ یہ نظم ۱۹۴۲ء سے پہلے لکھی گئی تھی مگر ۱۹۴۲ء میں اس خواب کی تعبیر اور اس قول کا عمل واضح ہوا۔ شاعر اور ادیب بعض اوقات جو نقش بناتے ہیں، زندگی اور سیاست وہاں تک بڑی دیر میں پہنچ پاتی ہے،


کیا ہند کا زنداں کانپ رہا ہے گونج رہی ہیں تکبیریں
اکتائے ہیں شاید کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں


بھوکوں کی نظر میں بجلی ہے توپوں کے دہانے ٹھنڈے ہیں
تقدیر کے لب کو جنبش ہے دم توڑی رہی ہیں تدبیریں


سنبھلو کہ وہ زنداں گونج اٹھا، جھپٹو کہ وہ قیدی چھوٹ گئے
اٹھو کہ وہ بیٹھیں دیواریں دوڑو کہ وہ ٹوٹیں زنجیریں


شاعری اور ادب کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ وقتی سیاست کے اشاروں پر چلے اور سیاسی تحریکوں کے ہر پیچ وخم کا ساتھ دے۔ شاعر لیڈر نہیں ہوتا، وہ ہر واقعہ کو انقلاب اور ہر موج کو طوفان نہیں بنا سکتا۔ وہ طوفان و انقلاب کے لئے فضا تیار کرتا ہے۔ وہ دلوں کی ان گہرائیوں میں اترتا ہے جہاں آرزوئیں کروٹ لیتی ہیں اور ان تاریک گوشوں میں ایک بڑے نصب العین کی شمع جلاتا ہے۔ یہ شمع جب ایک دفعہ جل گئی تو گل نہیں ہوتی، یہ بنیادیں ایک دفعہ استوار ہو گئیں تو کوئی آندھی انھیں مسمار نہیں کر سکتی۔ اس لیے شاعر اور ادیب کے لیے ضروری نہیں کہ ہر سیاسی واقعے پر نظم لکھے اور ہر نئے قدم کو ابدی ٹھہرائے۔ مگر ہندوستان کے اس انقلابی دور نے جب ادبی تخلیق کی انسانی فلاح و بہبود، تہذیبی ترقی، ذہنی عظمت سب کچھ سیاسی آزادی کے ساتھ وابستہ ہیں۔


شاعروں میں سپاہیانہ رنگ اور مجاہدانہ اسپرٹ، سیاسی شعور، ادبی نقطۂ نظر سے بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ جوش اس سپاہیانہ رنگ کے شاعر ہیں۔ میں نے کتنے ہی سیاسی جلسوں میں ان کی مشہور نظم ’’ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں سے‘‘ سنی ہے اور دیکھا ہے کہ بڑی بڑی تقریروں سے جو ممکن نہ تھا وہ اس نظم نے کر دکھایا۔ یہ نظم بڑا ادبی کارنامہ نہیں لیکن اس بات کا بہت بڑا ثبوت ہے کہ اردو کا شاعر دوسری جنگ عظیم کے دوران میں کہاں تھا اور کیا کہہ رہا تھا،


اپنے ظلم بے نہایت کا فسانہ یاد ہے
کمپنی کا پھر وہ دورِ مجرمانہ یاد ہے


لوٹتے پھرتے تھے تم جب کارواں در کارواں
سربر ہنہ پھر رہی تھی دولتِ ہندوستاں


ہجرت سلطانِ دہلی کا سماں بھی یاد ہے
شیر دل ٹیپو کی خونیں داستاں بھی یاد ہے


اک کہانی وقت لکھےگا نئے مضمون کی
جس کی سرخی کو ضرورت ہے تمہارے خون کی


جوشؔ کے اثر سے نئے شاعر بزم کو چھوڑ کر رزم کے مردِ میدان بن گئے۔ مجازؔ کے مجموعے آہنگ کا سرعنوان یہ شعر ہے۔


دیکھ شمشیر ہے یہ، ساز ہے یہ، جام ہے یہ
تو جو شمشیر اٹھالے بڑا کام ہے یہ


اندھیری رات کا مسافر، انقلاب، بدیسی مہمان سے، جلا وطن کی واپسی نے مجازؔ کو بزم خوباں سے نکال کر مجاہدین وطن کی صف میں کھڑا کر دیا۔ نئے شاعروں میں روشؔ، احسان دانشؔ، فراقؔ، ملاؔ، فیضؔ، جذبیؔ، مخدوم محی الدینؔ، سردار جعفری، شمیم کرہانیؔ، علی جواد زیدی، ؔ جاں نثار اخترؔ، اختر انصاریؔ کے کلام میں آزادی کی جنگ ایک خوش آیند رومانی تصور کے بجائے زندگی کا ایک مقدس فریضہ بن گئی ہے۔ اردو شاعری میں قنوطیت، فرار، مردم بیزاری کی جولے ایک طرح سے چلی آرہی تھی، اسے ان شعرا نے بدل کر دنیا کو جنت بنانے اور انسانیت کو تہذیب سکھانے کے لیے استعمال کیا۔ یہ ایک حیرت انگیز بات ہے کہ ہماری سیاست میں علیٰحدگی، انتشار، افتراق اور دوئی کی جو لہر تھی، اردو کے شعرا نے اسے مجموعی طور پر منہ نہیں لگایا۔ اقبال کی شاعری میں زیادہ مؤثر خطاب مسلمانوں سے ہے مگر وہاں بھی انسانیت کا ایک بلند تصور ہے جسے اسلامی جذبات اور اسلامی لباس دیا گیا ہے۔ اقبال وطن پرستی کے محدود تصور سے نکل کر وطن دوستی کا نعرہ بلند کرتے ہیں اور مرنے سے دو سال پہلے خدا سے کہتے ہیں،


میں بندۂ ناداں ہوں مگر شکر ہے تیرا
رکھتا ہوں نہاں خانہ لاہوت سے پیوند


اک دلولۂ تازہ دیا میں نے دلوں کو
لاہور سے تاخاک بخارا و سمرقند


لیکن مجھے پیدا کیا اس دیس میں تونے
جس دیس کے بندے ہیں غلامی پہ رضامند


ان کی ایک اور نظم شعاع امید میں ہندوستان کی عظمت کا تذکرہ دیکھیے،


اک شوخ کرن شوخ مثال نگہ حور
آرام سے فارغ صفت جوہر سیماب


بولی کہ مجھے رخصت تنویر عطا ہو
جب تک نہ ہو مشرق کا ہر اک ذرہ جہاں تاب


چھوڑوں گی نہ میں ہند کی تاریک فضا کو
جب تک نہ اٹھیں خاک سے مردان گراں خواب


خاور کی امیدوں کا یہی خاک ہے مرکز
اقبال کے اشکوں سے یہی خاک ہے سیراب


اس خاک سے اٹھے ہیں وہ غواص معانی
جن کے لیے ہر بحر پر آشوب ہے پایاب


اقبال کے بہت سے پیروان کے کلام کو غلط معنی پہناتے ہیں۔ وہ جو دنیا بسانا چاہتے ہیں، اس میں ماضی کی اچھی قدروں کا احساس تھا مگر ماضی پرستی نہ تھی۔ خود کہتے ہیں،


کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ وبغداد


اردو کے شاعر اور ادیب بحیثیت مجموعی ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں نہ صرف شریک بلکہ پیش پیش رہے تھے۔ ہماری سیاسی تحریک کی ہر منزل اور ہر مرحلے کی ادبی تصویریں موجود ہیں۔ لیکن لبرل نقطۂ نظر چکبست کے یہاں، انقلاب اور آزادی کے نعرے جوشؔ کے یہاں، آزادی کو سب کے لیے عام کرنے اور نچلے طبقے تک پہنچانے کا جذبہ ترقی پسند شعرا کے یہاں، اور قید و بند، دار و رسن، مرنے مارنے کی داستان، جوہرؔ، حسرتؔ، سردار جعفریؔ، شمیم کرہانیؔ کے یہاں ملتی ہے۔


روشن اندھیر ا شمیم کرہانی کی ان نظموں کا مجموعہ ہے جن میں ۱۹۴۲ء کی جنگ آزادی کا عکس ہے اور نئی دنیا کو سلام میں ایک وطن کا سپاہی اپنے ہونے والے بچے کو اپنا ادھورا کام ختم کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ پریم چند نے ’’میدان عمل‘‘ میں سول نافرمانی کے دور کی روح کھینچ دی ہے اور ہمارے افسانہ نگاروں نے تو اس کا کوئی پہلو چھوڑا ہی نہیں۔ انھوں نے آزادی کے جذبے کو سب کے لیے نوائے سینہ تاب بنایا۔ ان کے نفس سے یہ چنگاری شعلہ بن گئی ہے۔ وہ محض جذباتی طور پر آزادی کا ترانہ نہیں گاتے۔ اس آزادی کا ایک صحت مند اور ترقی پسند تصور بھی رکھتے ہیں۔ آج ہندوستان کی آزادی کے بعد یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ آزادی کی لڑائی لڑنے والے آزادی کے تصور میں ایک ہی رنگ بھریں اور ہندوستان کی تہذیب ومعاشرت نے صدیوں کے ارتقا کے بعد جو رنگارنگی، جامعیت اور ہمہ گیری پیدا کی ہے اسے فراموش کر دیں۔ اردو کے ادیب اس رنگارنگی، جامعیت کو ایک بڑی تہذیبی دولت سمجھتے ہیں اور اسے قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ اس سے یہ مطلب نہیں لینا چاہیے کہ وہ ہندوستان کی قومی زندگی میں وحدت کے خلاف ہیں۔


اردو کا ادیب موحد ہوتا ہے مشرک نہیں ہوتا۔ وہ ایک بنیادی وحدت کا قائل ہے مگر اس وحدت کے رنگارنگ مظاہرے سے شرماتا نہیں۔ گذشتہ سال اس ملک میں نفرت کے جو حیرت انگیز مظاہرے ہوئے ہیں اور فسادات کی وجہ سے جو انسانیت سوز مناظر دیکھنے میں آئے ہیں، ان کے خلاف سب سے پرزور آواز اردو کے افسانہ نگاروں اور شاعروں کی ہے۔ کرشن چندر نے ’’ہم وحشی ہیں‘‘ اور دوسرے افسانوں میں مذہب کے نام پر انسانوں کا خون بہانے کے خلاف جنگ کر کے ادب اور انسانیت دونوں پر احسان کیا ہے۔ یہ آواز بعض لوگوں کو کمزور معلوم ہوتی ہے۔ لیکن نفرت، تعصب اور بربریت کی فضا میں توازن، عقلیت، مساوات اور رواداری کا ترانہ ہمیشہ شروع میں کمزور معلوم ہوتا ہے مگر چونکہ یہ انسانیت کی آواز ہے اس لیے جلد یا بدیر اس کے پیچھے لوگ اس طرح ہو لیں گے جس طرح کوہ ندا کی آواز پر لبیک کہتے تھے۔ جب کبھی گذشۃ سو برس کی ذہنی تاریخ مرتب کی جائےگی تو اردو کے ادیبوں اور شاعروں کا کارنامہ زریں حروف سے درج ہوگا کیونکہ انھوں نے غلاموں کو آزادی کا احساس دلایا اور آزادی کو انسانیت اور تہذیب کی جنت بنانے پر اصرار کیا۔