ہند آریائی، مسلمانوں کی آمد سے پہلے


ہندوستان میں آریائی زبان کی تاریخ کے متعلق اکثر یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ آج تک ہندوستان کی اتنی مربوط اور مسلسل تاریخ کسی دوسرے ملک میں نہیں ملتی اور ہر دور میں اس کے ارتقا کی نشان دہی واضح مثالوں سے کی جاسکتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ خیال بہت کچھ حقیقت پر مبنی ہے۔ غیر ملکی مستشرقین، علمائے لسانیات اور ہندوستان کے قدیم ماہرین السنہ نے آریائی کے مختلف ادوار پر اتنا مواد یکجا کر دیا ہے کہ متنازعہ اور مختلف فیہ نتائج کے باوجود اس پر تاریخ زبان کی ایک مضبوط عمارت کھڑی کی جا سکتی ہے، تاہم یہ بھی ایک غور طلب حقیقت ہے کہ ابھی تک نہ صرف ہند یوروپی اور ہند ایرانی کی صحیح اور مربوط تاریخ ہمارے سامنے نہیں آئی ہے بلکہ خود ہند آریائی کے متعلق بعض حقائق کا انکشاف نہیں ہوا ہے اور اس کے کئی گوشے ابھی تک تاریکی میں ہیں۔ہندوستان میں ہند آریائی کے ارتقا کی داستان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک کہ آریوں کے ابتدائی وطن، مختلف خطہ ہائے زمین پر ان کے داخلے، دوسری نسلوں اور قوموں سے ان کے تعلقات کی نوعیت اور ان کی سیر وسفر کی زمانی اور مکانی صورت حال کا صحیح علم نہ ہو جائے۔ جہاں تک ہند آریائی کے ارتقائے مابعد کا تعلق ہے، ان باتوں کا علم بھی ضروری ہے کہ جس وقت آریہ ہندوستان میں آئے، اس وقت ان کی زبان یا بولیاں ارتقاء کی کس منزل پر تھیں۔ ہندوستان میں کون کون سی قومیں آباد تھیں اور کون سی زبانیں بولی جاتی تھیں۔ آریہ، جب تقریباً سارے شمالی ہند میں پھیل گئے تو اس علاقے کے بسنے والوں کے ساتھ انہوں نے کیا سلوک کیا اور کس حدتک ان میں تہذیبی اور لسانی اختلاط ہوا۔مستند سے مستند محققوں کی تصانیف کا مطالعہ کرنے کے بعد بھی سارے نقوش واضح نہیں ہوتے۔ یہ ضرور ہے کہ جتنا وقت گزرتا جاتا ہے، ابتدا کی بعض قیاس آرائیاں یا تو غلط ثابت ہو رہی ہیں یا یقین کی شکل اختیار کرتی جارہی ہیں اور تاریخ کی واقفیت کے ساتھ زبان کی واقفیت کا دائرہ بھی وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ علم الآثار، علم الاقوام، بشریات، عمرانیات اور دوسرے سماجی اور طبعی علوم کی مددسے مختلف علاقوں کی زبان اور زندگی کے متعلق معلومات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس لئے ہند آریائی کا تاریخی اور توضیحی مطالعہ کس قدر آسان ہو گیا ہے۔ پھر بھی ایک عام مطالعہ کرنے والے کوچند بنیادی باتوں پرنظر رکھنا ضروری ہے۔ہند آریائی کے مطالعے کے لئے ایک طرف یامکؔ، پاننیؔ، پاتن جلیؔ، ہیم چند اور دوسرے قدیم ہندوستانی علماء کے خیالات اور نتائج سے واقفیت ضروری ہے۔ دوسری طرف اس سلسلہ تحقیق کا علم ناگزیر ہے جس کی ابتدا سر ولیم جونس کے ان خیالات سے ہوئی تھی جو اس نے سنسکرت گاتھک، یونانی، لاطینی، کلٹک اور قدیم ایرانی کے باہمی تعلق کے متعلق ۱۷۸۶ء میں ظاہر کئے تھے اورجس سے یورپ میں علم اللسان اور تقابلی لسانیات کا آغاز ہوا اور تھوڑے ہی دنوں کے اندر اسے ایک آزاد علم کی حیثیت حاصل ہو گئی۔زبان کی ساخت کا مطالعہ ممکن ہے کسی ملک کی تاریخ، جغرافیہ اور عام تہذیبی حالات کے جانے بغیر کسی حد تک ہو بھی جائے لیکن اس کی سماجی حیثیت، ارتقاء اور اہمیت کا اندازہ دوسرے سماجی علوم کی مددکے بغیر بالکل ناممکن ہے، اسی وجہ سے ہند آریائی کے ہندوستان میں پھیلنے، دوسری زبانوں سے متاثر ہونے یا انہیں متاثر کرنے، مختلف گروہوں میں تقسیم ہونے اور تاریخی تقاضوں کے ساتھ ساتھ خود کو بدلتے ہوئے حالات سے ہم آہنگ ہونے کے لئے نئے سانچوں میں ڈھلنے کی کہانی چند تاریخی حقائق کو سمجھے بغیر نہیں بیان کیا جا سکتی۔(۱)ہندوستان میں آریہ قوم کے داخلے سے پہلے کون سی قومیں آباد تھیں اور ان کا لسانی ورثہ کیا تھا، اس کا تذکرہ صرف چند محققوں اور مؤرخوں کے یہاں ملتا ہے جن کو پیش نظر رکھ کر ڈاکٹر سنیتی کمار چٹرجی نے ان انسانی گروہوں کا تذکرہ کسی قدر محتاط انداز میں کیا ہے جو پانچ چھ ہزار سال قبل مسیح ہی سے ہندوستان میں وارد ہو گئے تھے۔ یہ معلومات بھی قطعی اور آخری نہیں ہیں۔ اس لئے ہندوستان کی لسانی تاریخ کے سلسلے میں انہیں یقینی طور سے استعمال نہیں کیا جا سکتا تاہم ان سے واقفیت ہند آریائی تاریخ کے سمجھنے میں مفید ہوگی۔اگرچہ ہندوستان میں انسانی جسم کے بہت قدیم ڈھانچے دستیاب ہوتے ہیں لیکن یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا ہے کہ یہاں انسان پیدا ہوئے ہیں یا نہیں۔ قیاس یہی ہے کہ یہاں نوع انسانی کے ابتدائی نمونے باہر ہی سے آئے۔ چنانچہ سب سے پہلے آنے والے، جن کے بعض آثار اب بھی دستیاب ہو جاتے ہیں حبشی نسل کے وہ لوگ تھے جو غالباً افریقہ سے سمندر کے کنارے کنارے چل کر ہندوستان پہنچے۔ انہیں ڈاکٹر سنیتی کمار چٹرجی نے نیگریٹو Negrito کے نام سے موسوم کیا۔ ان لوگوں کو زراعت یا گلہ بانی کا علم نہیں تھا بلکہ ابتدائی حجری عہد کی تہذیب کے علمبردار تھے۔ ان نوواردوں کے گروہ جنوبی ہندمیں پھیل گئے اور پھر شمال مشرق ہند سے ہوتے ہوئے برما چلے گئے۔ وہاں سے نکل کر انڈمان کے جزیروں میں بس گئے۔ان کے آثار ملایا اور سماترا کے بعض جزیروں اور فلپائن کے مجموع الجزائر میں اب بھی ملتے ہیں۔ جنوبی بلوچستان، دکن اور تبتی برمی علاقوں میں بسنے والے قبائل میں ان کی نشانیاں اور خصوصیات موجودہیں حالانکہ اکثر و بیشتر ان کی تہذیبی علامتیں بعد کے انسانی گروہوں میں جذب ہو گئی ہیں۔ لسانی حیثیت سے ان کا وجود صرف انڈمان کے جزیروں میں رہ گیا ہے جہاں ان میں دوسری نسلوں کی آمیزش کم سے کم ہوئی ہے۔ ہندوستان کے لسانی خزانے میں ان کے چند کھوٹے اور مشکوک سکوں کے سوا اور کچھ باقی نہیں رہ گیا ہے۔دوسری قوم کے لوگ جن کے ہندوستان میں آنے کا سراغ ملتا ہے، بحیرۂ روم کی طرف سے آئے۔ انہیں پروٹواسٹرلائڈ Protoaustraloid یا اسٹرک Austric کہا جاتا ہے۔ ہندوستان میں بس جانے کے بعد ان کی شاخیں اپنی زبان لئے ہوئے ملایا، انڈونیشیا، ملیشیا اور بعض دوسرے جنوبی مغربی خطوں میں پہنچیں۔ ان میں بعض منگولی، نیگرو اور قفقازی قبائل کی آمیزش ہوتی گئی۔ کچھ گروہ ہند چین کی طرف جاکر مان کھمیر اور کمبوڈی قبائل میں تبدیل ہو گئے، کچھ نکوبار گئے اور وہاں نکوباری کہلائے۔ آسٹریلیا کے بعض نیم وحشی گروہ اور سیلون کے ودا بھی اسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔بعض علماء کا خیال ہے کہ آسام کے بعض قبائل اسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں اور قدیم کھاسی قبیلے ان کے مورث اعلیٰ تھے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کھاسی منگولی نسل کے ہوں اور انہوں نے ہندوستان کے اس علاقے میں پہنچ کر آسٹرک زبان اختیار کر لی ہو۔ موجودہ ہندوستان میں نسلی اختلاط کے باوجود آسٹرک نسل اور زبان کی نمائندگی کول یا منڈانسل کے لوگوں سے ہوتی ہے جن میں سنتھالی، ہو، منڈا، کوروا، بھومیجے اور کرکو وغیرہ شامل ہیں۔ جنہوں نے اپنی بولیوں کی قدیم لسانی خصوصیات برقرار رکھی ہیں۔ انہوں نے پہلے تہذیبی ارتقاء کی جو منزلیں بھی طے کی ہوں، ہندوستان میں آکر ان کو تانبے اور لوہے کا استعمال معلوم ہوا اور زراعت کے ابتدائی طریقے اختیار کرکے انہوں نے پہاڑی ڈھلوانوں پردھان کی کاشت کی۔ غالباً انہوں نے نہ تو جانور پالے اور نہ دودھ استعمال کیا۔ بیس کے عددکو چیزوں کے گننے کے لئے استعمال کرنے اور چاند کے گھٹنے بڑھنے سے دنوں کا حساب کرنے کا رواج بھی انہیں کے زمانے سے ملتا ہے۔آسٹرک قبیلے شمالی اور وسطی ہندوستان میں آباد ہو گئے اور غالباً آریوں کے آنے سے قبل وہ دراوڑوں کے ساتھ مل کر ترقی کرتے رہے۔ ان کے کئی مذہبی عقائد مثلاً تناسخ وغیرہ بعد میں ہندو مذہب افکار کا جزو بن گئے۔ ان کے بہت سے الفاظ دراوڑی اوراؔریائی بولیوں میں شامل ہو گئے۔ خود گنگا ندی کا نام انہیں کا دیا ہوا ہے۔ یہ لفظ کھیانگ، کیانگ، کھانگ کھونگ اور بعض دوسری ملتی جلتی شکلوں میں متعدد ہند چینی، سیامی اور انامی بولیوں میں ملتا ہے جس کے معنی ہیں ندی یا پانی۔ لسانی تغیرات کے ماتحت یہ گنگ بنا اور پھر گنگا۔آسٹرک قبائل کے ہندوستان میں آنے کا صحیح زمانہ نہیں بتایا جا سکتا لیکن اسے پانچ ہزار سال قبل مسیح سے پیچھے بھی نہیں رکھا جا سکتا کیونکہ دراوڑ نسل کے لوگ ان کے بعد ہندوستان میں داخل ہوئے اور ان کی آمد کا زمانہ بھی تقریباً یہی ہے۔ بعض علماء نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ آسٹرک اور دراوڑ تقریباً ایک ہی زمانے میں آئے۔ فرق صرف یہ ہے کہ آسٹرک ہند چین سے اور دراوڑ بحیرہ روم کی طرف سے آئے۔ ماضی قریب میں ہنگری کے ایک ماہر لسانیات ہیوسی ویماس نے آسٹرک بولیوں کے متعلق یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ ان کا تعلق یورالی خاندن کی زبانوں سے ہے لیکن ابھی دوسرے علماء نے اسے تسلیم نہیں کیا ہے۔ حالانکہ اس امکان کا انکار نہیں کیا جاتا کہ کوئی کول یا منڈا کی تشکیل پر یورانی زبان کا اثر پڑا ہو۔بہرحال یہ لسانی خاندان ہندوستان میں ایک ایسی شکل میں پایا جاتا ہے جس کی ایک انفرادی حیثیت ہے۔ اب اس خاندان کی زبانوں کے بولنے والے آہستہ آہستہ کم ہوتے جارہے ہیں کیونکہ وہ جن بڑے لسانی خطوں میں آباد ہیں وہاں کی ترقی یافتہ زبانیں حاصل کرتے جا رہے ہیں اور خود ان کی بولیوں کا دائرہ محدود ہوتا جا رہا ہے۔ آسام، بنگال، بہار، مدھیہ پردیش اور اڑیسہ کے بعض حصوں میں وہ پائے جاتے ہیں جو آسٹرک گروہ کی بولیاں آج بھی بولتے ہیں۔ہندوستان میں آنے والوں کا تیسرا بڑا گروہ ہے جنہیں دراوڑ کہا جاتا ہے۔ اس نسل کے لوگ بھی بحیرہ روم ہی کی طرف سے آئے اور ابتداً وادی سندھ میں بسے، پھر آہستہ آہستہ ملک کے دوسرے اور خاص کر شمالی حصوں میں پھیل گئے۔ دراوڑ تہذیب کے جو نشانات ہڑپا (مغربی جنوبی پنجاب) اور موہن جوداڑو (سندھ) میں پائے جاتے ہیں، ان سے اگر کچھ معمے حل ہوئے ہیں تو کچھ الجھ بھی گئے۔ تاہم اب یہ بات یقین کی حد تک تسلیم کر لی گئی ہے کہ آریوں کے ہندوستان میں آنے سے پہلے بھی یہاں ایک تہذیب کا نشوونما ہوا تھا جوایک ترقی یافتہ زبان کے بغیر ناممکن تھا۔ کھدائی میں جو کتبے اور تحریریں ملی ہیں وہ ابھی تک پڑھی نہیں جا سکی ہیں۔ لیکن یہ عام خیال ہے کہ ان کا تعلق قدیم دراوڑ تہذیب سے ہے اور بہت ممکن ہے کہ اس کا رشتہ سمیری اور بابلی تہذیب سے بھی ہو۔لسانی نقطہ نظر سے دراوڑ تہذیب کا مطالعہ اس لئے بہت اہم ہے کہ اس وقت بھی ہندوستان کی تقریباً ایک تہائی آبادی دراوڑ زبان کی مختلف شکلیں استعمال کر رہی ہے۔ تقریباً سارا جنوبی ہند، شمالی سیلون اور بلوچستان کا ایک علاقہ (جہاں برا ہوئی زبان رائج ہے) اسی زبان کے زیر نگیں ہیں اور اس کی کم سے کم چار زبانیں تامل، تیلگو، کنڑ اور ملیالم ہندوستان کی قومی زبانوں میں شامل ہیں۔ غیر آریائی زبانوں کا یہ سب سے بڑا خاندان لسانی اور ادبی حیثیت سے ملک کی مشترکہ قومی تہذیب کا ایک عظیم الشان ورثہ ہے۔ سنسکرت سے متاثر ہونے کے باوجود ساخت کے اعتبار سے دراوڑ زبانیں آریائی زبانوں سے اس قدر مختلف ہیں کہ دونوں کا الگ الگ زندہ رہنا اور ترقی کرنا لازمی ہے۔دراوڑ جڑنے والی یا اتصالی ہے تو آریائی، اشتقاقی، اس لئے ہندوستان کے لسانی ورثہ کا مطالعہ کرنے والے اسے کسی حالت میں بھی نظرانداز نہیں کر سکتے۔ ہندوستان کی ایک مشترکہ سرکاری یا قومی زبان بنانے کا مسئلہ، دراوڑ زبانوں کی موجودگی، قدامت اور ترقی پذیر ادبی سرمایہ کی وجہ سے اور زیادہ مشکل ہو گیا۔ اگرچہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خود دراوڑ کی مختلف بولیوں میں اتنا فرق ہے کہ ایک علاقے کے لوگ دوسرے علاقے کی بولی بغیر سیکھے ہوئے سمجھ نہیں سکتے۔ ان کا نشوونما بھی یکساں طور پر نہیں ہوا ہے، جتنی ترقی تامل کی ہوئی ہے، اتنی دوسری دراوڑ زبانوں کی نہیں ہو سکی اور وہی سب سے کم سنسکرت سے بھی متاثر ہوئی ہے۔ہندوستان کے لسانی علاقوں سے معمولی واقفیت رکھنے والا بھی اتنی بات جانتا ہے کہ تاریخ کے زمانہ معلوم سے دراوڑ زبانیں جنوبی ہند میں محدود ہیں۔ آریائی زبان کے قدیم قواعد نویسوں نے ان کا ذکر نہیں کیا ہے اس لئے ہندوستان میں لسانیاتی ارتقا کا مطالعہ کرنے والوں کو ان سوالوں کا تسکین بخش جواب نہیں ملتا کہ جب دراوڑ ہندوستان میں آئے تو آسٹرک زبان بولنے والوں سے ان کا اختلاط کس طرح ہوا؟ دراوڑ صرف شمالی ہند میں آباد ہوئے یا پورے ملک میں؟ ان کی زبان ایک ہی تھی یا ان کے مختلف قبائل مختلف زبانیں بولتے تھے؟ جب آریہ ہندوستان میں آئے تو کس طرح ساری دراوڑ قوم وندھیاچل کے اس پار چلی گئی؟ کیا اس وقت شمالی ہند میں آسٹرک اور دراوڑ زبانوں کے علاوہ کوئی اور زبان بھی بولی جاتی تھی؟ہمیں بس اتنا ہی معلوم ہے کہ آریوں کے آنے کے تھوڑے ہی دنوں بعد جنوبی ہند میں تامل (مدراس) تیلگو (آندھرا) کنڑ (میسور) اور ملیالم (کیرالہ) مختلف علاقوں میں پھیل گئیں اور مختلف اوقات میں مختلف آریائی اثرات قبول کرتی رہیں۔ یہاں اس بحث کی ضرورت نہیں کہ آریوں نے دراوڑی مذہبی عقائد، تہذیب اور افکار سے کیا لیا اور انہیں کیا دیا۔ جہاں تک زبان کا تعلق ہے، یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ سنسکرت نے دراوڑ زبان پر زبردست اثر ڈالا اور سنسکرت میں بھی کچھ دراوڑ الفاظ شامل ہو گئے۔اس دوران میں ہندوستان کی شمالی مشرقی سرحد سے کچھ تبتی چینی اور منگلولی قبائل بھی آئے لیکن نہ تو وہ ملک کے دوسرے حصوں میں پھیل سکے اور نہ ان کی زبانوں نے یہاں کے لسانی سرمایہ میں اضافہ کیا کیوں کہ ان کا دائرہ عمل نہ صرف اس وقت محدود تھا بلکہ اب تک محدود ہے۔(۲)آریہ قوم کے ہندستان میں داخل ہونے کے بعد سے تاریخ عالم میں ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ اگرچہ اس دور کی تاریخ کے بہت سے گوشے اس وقت تک تاریکی یا نیم تاریکی میں ہیں لیکن جو معلومات حاصل ہو گئی ہیں ان کی روشنی میں بہت سے اہم نتائج نکالے جا سکتے ہیں۔ یہ باتیں بحث طلب ہیں کہ آریہ اصلاً کہاں پیدا ہوئے اور کب کب ان کے گروہ اپنی اصل سے جدا ہوکر یورپ اور ایشیا کے مختلف حصوں میں آباد ہوئے لیکن اب یہ بات یقینی طور پر تسلیم کر لی گئی ہے کہ یہ لوگ وسط ایشیا سے چل کر ایران کے مختلف حصوں میں آباد ہو گئے اور وہیں سے ان کے مختلف گروہ تقریباً پندرہ سو سال قبل مسیح سے ہندوسان میں آنا شروع ہو گئے۔ ان کے ہندوستان آنے سے پہلے کی تاریخ بھی لسانی مطالعہ کے لئے بہت ضروری ہے لیکن اس کا ذکر مختصراً ہی کیا جا سکتا ہے۔آریوں کا اصل وطن ایشیا اور یورپ کا وہ مشترک خطہ قرار دیا جاتا ہے جو یورال اور بحیرہ کیسپن سے وادی ڈینوب تک پھیلا ہوا ہے۔ یہیں ان کے قافلے اپنی زبانوں کے ساتھ جنوبی یورپ اور ایران کی طرف گئے۔ ایران میں وہ کتنے دنوں تک رہے اس کے متعلق یقینی معلومات نہیں۔ منتشر ہونے سے پہلے ان کی زبان جسے محض آریائی بھی کہہ سکتے ہیں، جدید لسانی اصطلاح میں ہند یورپی (انڈویوروپین) کہی جاتی ہے اوراس کے اسی نام کے تحت وہ سارے لسانی گروہ رکھے جاتے ہیں جو اسی سے وجود میں آئے۔ ماہرین لسانیات نے اس سے بھی پہلے کی لسانی شکل کو ماقبل ہند یوروپی (پروٹو انڈویورپین) کہا ہے، جو مفروضہ زیادہ اور حقیقت کم ہے۔بہرحال اس ہند یوروپی کی وہ شاخ جو ایران میں سرسبز ہوئی، ہند ایرانی کے نام سے موسوم ہوئی۔ علماء کا خیال ہے کہ اس وقت ایران میں اس کی کوئی شکل نہ تھی بلکہ آریوں کے مختلف گروہ ملتی جلتی مختلف زبانیں بولتے تھے۔ غالباً ان کی تہذیبی زندگی بھی ایک سطح پر نہیں تھی لیکن بڑی حد تک وہ ایک مکمل اور ترقی یافتہ زبان بنانے میں کامیاب ہو چکے تھے اور خانہ بدوشی کی زندگی سے گزر کر زراعتی اور اقامتی زندگی کے دائرے میں داخل ہو چکے تھے۔ وہ خوبصورت، ذہین اور مہم جو تھے اور جدھر بڑھتے تھے کامیاب ہوتے تھے۔ تقریباً پندرہ سو سال قبل مسیح ان کے بعض گروہ شمال مغرب کی طرف سے ہندوستان میں داخل ہوئے اور پھر کئی سالوں تک ان کے قبائل آتے رہے۔ یہ سارے قبائل ہند ایرانی بولتے ہوئے آئے اور لسانی ارتقا کی اس منزل میں داخل ہو گئے جسے ہند آریائی کہتے ہیں۔اس کے بعد کی سب سے اہم حقیقت یہ ہے کہ ہند ایرانی کی ایرانی شاخ کا ارتقاء ایک ڈھنگ سے ہونا شروع ہوا اور ہندوستانی کی شاخ کا دوسرے ڈھنگ سے۔ اسی دوسری شاخ کے ارتقاء کی داستان ہندوستان میں زبانوں کی مسلسل تاریخ پیش کرتی ہے۔ بعض علماء نے اس ہندوستانی شاخ میں پشاچی کو بھی شامل کر لیا ہے۔ جس کی مختلف شاخیں کشمیر میں پائی جاتی ہیں اور جسے بعد میں ہندوستانی علماء نے پراکرتوں میں شمار کیا ہے۔ بعض ماہرین نے اس کا نام دردی یا دردائی بھی لکھا ہے۔ہند آریائی کی ابتدائی شکل کا تقابلی مطالعہ کرنے والا ایران کی ابتدائی زبانوں کا مطالعہ کرنے پر مجبور ہوگا کیوں کہ ان کی باہمی مشابہت بہت سے الفاظ کی اصل ہی کے سمجھنے میں معین نہ ہوگی بلکہ ان کے ایک ہی اصل کی شاخیں ہونے کی توثیق کرےگی۔ اوستا اور رگ وید کی زبانیں ایک دسرے سے اتنی مماثل ہیں کہ لسانی نقطہ نظر سے ان کے ایک ہونے کے متعلق کوئی شک نہیں رہ جاتا، اگرچہ تاریخی تفاوتوں میں سے ان کے ارتقا کی شکلیں بعد میں بالکل بدل گئیں، یہاں تک کہ اب صرف ماہرین زبان ان کے مشترک ماخذ کا علم رکھتے ہیں۔ زرتشتی اوستا کا پہلوی میں تبدیل ہونا، پھر پہلوی یا فارسی قدیم کا مختلف علاقوں میں مختلف شکلیں اختیار کرنے کے بعد جدید فارسی میں تشکیل پانا، اسی طرح اپنی تاریخ رکھتا ہے جیسے ہندوستان میں ہند آریائی کا ویدک سنسکرت کی شکل اختیار کرنا، پھر پراکرتوں کا پھیلنا اور جدید بھاشاؤں کو جنم دینا ایک لسانی تاریخ کا حامل ہے۔(۳)آریہ قوم کے لوگ کوہ ہند وکش کے سلسلوں کو عبور کرکے ہندوستان کے شمالی مغربی علاقوں میں داخل ہوئے۔ جہاں ان کا مقابلہ دراوڑ قوم سے ہوا جو اس وقت تہذیبی عروج کی منزلوں سے گزر چکے تھے۔ شہروں میں رہتے اور قلعوں کا استعمال جانتے تھے لیکن غالباً فن جنگ میں آریوں سے پیچھے تھے۔ اس لئے آویزشوں، جنگوں اور پرامن رابطوں کے بعد آنے والے پنجاب اور سندھ میں آباد ہو گئے۔ان باتوں کا علم ہمیں رگ وید کے بعض حصوں سے ہوتا ہے جن کی تصنیف کا سلسلہ آریوں کے ہندوستان آنے سے پہلے شروع ہو چکا تھا اور جس کی تحریری ترتیب کا زمانہ تقریباً ایک ہزار سال قبل مسیح ہے۔ آریوں نے ہندوستان کے قدیم باشندوں (دراوڑ اور آسٹرک اقوام) کو داس اور دسیو کہا ہے، اپنی فتح اور ان کی شکست پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چند سو سال کے اندر پورے شمالی ہندوستان پر ان کا اقتدار پھیل گیا اور یا تو داس لوگ جنوبی ہند کی طرف چلے گئے یا تقریباً غلامی کی زندگی بسر کرنے لگے۔اس درمیان میں اگرچہ آریہ دراوڑی تہذیب اور مذہب سے متاثر ہوئے تھے لیکن عملاً یہ ہوا کہ آریائی تہذیب اور زبان کے سوا شمالی ہند میں کوئی قابل ذکر عنصر باقی نہیں رہا۔ آریوں کے مختلف گروہ (یا گوتر) مختلف اوقات میں آئے، ان کی زبانیں ایک ہوتے ہوئے بھی بالکل یکساں نہ تھیں لیکن ہندوستان کے قیام کے دوران میں اس سے ایک ادبی نشوونما ہوا جسے ویدک سنسکرت کہا گیا ہے۔ اس کے علاوہ لوگ اس سے ملتی جلتی زبانیں بھی بولتے رہے جن کے ارتقا کے متعلق یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ جب دسویں صدی قبل مسیح میں لکھنے کا رواج ہوا اس وقت انہیں محفوظ نہیں کیا گیا۔ ان کا پتہ اس سے چلتا ہے کہ رگ وید کے بعد جب دوسرے وید مرتب کئے گئے، مذہبی رسوم کے متعلق رسائل تیار کئے گئے تو ان میں بہت سے ایسے الفاظ شامل ہو گئے جو رگ وید میں نہیں پائے جاتے تھے۔اسی طرح بعد کی تحریروں میں ایسے الفاظ کی تعداد بڑھتی رہی، یہاں تک کہ بعد کے خالص سنسکرت ڈرامو ں میں عام لوگوں کی زبان سے بول چال کی زبانیں استعمال کرائی گئی ہیں۔ اس طرح یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ سنسکرت کے ساتھ ساتھ کچھ دوسری بولیاں بھی رائج تھیں۔ یہ آریائی زبان پچھم سے پورب کی جانب بڑھتی چلی گئی اور تاریخی تقاضوں کے مطابق ارتقا پذیر ہوتی اور بدلتی رہی۔علمائے لسان نے آسانی کے لئے ہند آریائی کے ارتقا کو تین ادوار میں تقسیم کیا ہے اور ان کا مطالعہ عام طور سے انہیں کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ اگرچہ ہر زمانی تقسیم کی طرح اس میں بھی قطعیت تسلیم کرنا مشکل ہے کیونکہ لسانی ارتقا وقت لیتا ہے اور مسلسل عمل سے وجود میں آتا ہے۔ اس کو کسی مختصر وقفے میں محدود کرنا غلط ہوتا ہے۔ تاہم یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ اس ارتقا کی رفتار یکساں اورمتعین نہیں بلکہ تاریخی، جغرافیائی اور مختلف سماجی اثرات کے تابع ہوتی ہے۔ چنانچہ ہند آریائی کے ارتقا کی مختلف منزلیں اس کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ عام طور سے یہ داستان پندرہ سو سال قبل مسیح سے شروع کی جاتی ہے۔ اس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔(۱) قدیم ہند آریائی ۱۵۰۰قبل مسیح سے ۶۰۰قبل مسیح تک۔(۲) وسطی ہند آریائی ۶۰۰قبل مسیح سے ۱۰۰۰تک(۳) جدید ہند آریائی ۱۰۰۰ء سے حال تکاس میں اتنی ترمیم کی جا سکتی ہے کہ وسطی اور جدید آریائی کے درمیان ۸۰۰ء سے ۱۴۰۰ء تک تقریباً ۶۰۰ سال کا اور دور قائم کیا جائے جسے اپ بھرنشوں کا دور کہا جائے۔ اس طرح ہند آریائی کے ارتقا کی تاریخ تین کے بجائے چار ادوار میں تقسم کی جا سکتی ہے۔ یہ کس حد تک مناسب ہے اس کا تذکرہ آگے کے صفحات میں آئےگا۔(۴)جیسا کہ بیان ہوا، قدیم ہند آریائی سے سنسکرت کی وہ مختلف شکلیں مراد ہیں جن کا ارتقا آریوں کے ہندوستان میں آنے کے بعد ہوا۔ یہ بات کسی قدر یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ جب آریہ شمالی ہندوستان کے اچھے خاصے وسیع علاقے میں پھیل گئے، اس وقت کی زبان کا معیار یکساں نہیں تھا۔ ان کے سبھی گروہ آریائی زبان بولتے تھے لیکن اس کے اندر سے جس ادبی اور تہذیبی زبان کا ارتقا ہوا اسی کو ویدک سنسکرت کہا جاتا ہے۔ یہ زبان اپنی نکھری ہوئی مہذب سنواری ہوئی (کیونکہ خود لفظ سنسکرت کے مفہوم میں یہ ساری خصوصیات پوشیدہ ہیں) شکل میں تمام بولنے والوں کی زبان نہیں تھی۔ اگرچہ ان بولیوں اور زبانوں سے زیادہ دور نہیں تھی جن کی وہ ترقی یافتہ شکل کہی جا سکتی ہے۔غالباً اس نے ابتدائی ترقی کی منزلیں پنجاب اور اس کے ملحقہ علاقوں میں طے کی ہوں گی کیونکہ بعد میں آریوں نے اسی خطہ کی آریائی زبان کو سب سے زیادہ اعلیٰ، خالص اورمستند قرار دیا۔ یوں چند صدیوں کے اندر ہی اندر شمالی ہند میں تین خطوں کی زبانیں تین معیار کی تسلیم کی گئیں۔(۱) ادیچیہ یا شمالی اور شمالی مغربی (یعنی پنجاب اور اس سے ملحق علاقے)(ب) مدھیہ ویشیہ یا وسطی (مشرقی پنجاب سے الہ آباد تک کا علاقہ)(ج) پراچیہ یا مشرقی (مشرقی یوپی اور بہار کے علاقے)ادیچیہ سب سے زیادہ معیاری اور اعلیٰ تھی۔ مدھیہ ویشیہ اس سے کمتر معیاری اور پراچیہ بالکل گری ہوئی اور غیر معیاری۔ اس طرح یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اس وقت بھی سارے شمالی ہندوستان میں کوئی معین اور مشترک واحد زبان موجود نہیں تھی۔ اگرچہ ساری آریائی زبانیں اپنے ماخذ میں ایک تھیں۔ ویدک سنسکرت کو اگر ہم کتابی یا علمی زبان قرار دیں تو اس کی ہم عصر دوسری بولیوں کو بول چال کی زبان کہہ سکتے ہیں۔ کتابی زبان جلد جلد نہیں بدلتی، قواعد اور ضوابط میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ بول چال کی زبان بڑھتی اور پھیلتی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے اکثر علماء کا خیال ہے کہ جس عہد میں سنسکرت نے غیر معمولی اہمیت اختیار کی، اس وقت بھی بول چال کے لئے کچھ ملتی جلتی بولیاں استعمال ہوتی تھیں۔ویدک سنسکرت مذہبی کتابوں میں محفوظ رہ گئی۔ بول چال کی زبانیں لکھی نہ جانے کی وجہ سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ ڈاکٹر سنیتی کمار چٹرجی کا خیال ہے کہ جب ویدوں کی شاعرانہ اور بول چال کی عام زبانوں کا فرق زیادہ بڑھ گیا تو سنسکرت کی وہ شکل وجود میں آئی جو بول چال سے قریب تر تھی اور اسی کو ادبی کاموں کے لئے استعمال کیا جانے لگا اور اس کو ویدک سنسکرت سے متمائز کرنے کے لئے کلاسکی سنسکرت یا صرف سنسکرت بھی کہا گیا ہے۔ اس زبان کے قواعد اور ضوابط مشہور قواعد داں پاننی نے غالباً پانچویں صدی قبل مسیح میں اس طرح مرتب کر دیے کہ ادبی سنسکرت پر اس وقت تک اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ڈاکٹر کاترے نے اپنی کتاب پر اکرت لیگنویجز میں لکھا ہے کہ ہمیں اس بات کا خیال ضرور رکھنا چاہئے کہ سنسکرت کی ترتیب اور تدوین قواعد دانوں نے کی۔ پاننیؔ اور پاتنؔ جلی کے عہد تک سیکڑوں قواعد دانوں نے اسے بنایا اور سنوارا اور ان دونوں عالموں نے اپنی تصانیف اشٹ ادھیائے اور مہابھاسیہ میں انہیں جکڑ دیا۔ یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ سنسکرت قدیم آریائی کی ان بہت سی بولیوں ہی سے نکھر کر معیاری منزل تک پہنچی جو رگ وید کے زمانے سے آریوں میں رائج تھیں۔چونکہ ہمیں ہند آریائی کے اس پہلے دور میں صرف سنسکرت کے متعلق معلومات حاصل ہیں، اس لئے عام لوگ خیال کرتے ہیں کہ اس وقت صرف سنسکرت ہی تھی، وہی عوام کی زبان بھی رہی ہوگی، یہ خیال درست نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ سنسکرت ایک زندہ زبان تھی لیکن اس کے مذہبی تقدس، اعلیٰ معیار اور قواعد کی سخت گیری نے اسے اوپری طبقے تک ہی محدود رکھا تھا۔ خود سنسکرت کے اندر صوتی اور لسانی حیثیت سے جو ارتقا ہوا اس کا اندازہ صرف علماء کو ہے۔عام لوگ تو صرف یہ دیکھتے ہیں کہ اپنی کلاسیکی منزل میں سنسکرت ہندوستان کے اکثر حصوں کے علاوہ افغانستان، وسطی ایشیا، تبت، چین، کمبوڈیا، سماترا، جاوا، یورینو وغیرہ کے بعض حصوں میں پھیل کر علمی زبان کا کام دینے لگی اور مسلمانوں کے ہندوستان میں آنے سے قبل بعض بدھ اور جین فرقوں کے علاوہ تمام لوگوں کے لئے مذہبی اور تہذیبی زبان کی حیثیت سے اعلیٰ ترین مقام پر فائز رہی۔ گویا لسانی تاریخ کے نقطہ نظر سے تو اس کا ارتقا صرف چھ سو قبل مسیح تک تسلیم کیا جاتا ہے لیکن تاریخی اعتبار سے اسے ابتدائی عیسوی صدیوں میں بھی زبردست عروج حاصل ہوا اور اس کے اعلیٰ ترین ادبی نمونے اس زمانے میں وجود میں آئے۔سنسکرت کے لسانی اور صوتی ارتقا کے لئے سنسکرت زبان اور ادب کی تاریخوں کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ یہاں مختصراً اس حقیقت کو پیش نگاہ رکھنا چاہئے کہ آریوں کے ہندوستان میں داخل ہونے کے بعد سے مسلمانوں کے داخلہ ہند تک اس عظیم الشان زبان کو کئی منزلوں سے گزرنا پڑا۔ ڈاکٹر سدھیشور ورما نے اپنی مختصر کتاب ’’آریائی زبانیں‘‘ میں قدیم ہند آریائی کو پانچ منزلوں میں تقسیم کیا ہے تاکہ اس کا مطالعہ ارتقائی نقطہ نظر سے کیا جا سکے۔(۱) ویدک منزل، اس میں سنسکرت کا نشوونما ہوتا ہے۔ اوریہ ایک خاص جماعت یا پروہتوں کی زبان معلوم ہوتی ہے۔ ویدوں میں وہ الفاظ بہت کم ملتے ہیں جن سے اس وقت کی دوسری بولیوں کی صوتی خصوصیات کا اندازہ لگایا جا سکے۔(۲) عہدپاننی کی منزل، اس دور میں سنسکرت ہندوستان کے عالموں کی مشترکہ زبان بن گئی۔(۳) رزمیہ منزل، اس منزل میں جس میں خاص کر مہابھارت کی تصنیف ہوئی، عام لوگوں کی بول چال سے کثیرالتعداد الفاظ سنسکرت میں شامل کئے گئے۔(۴) دینوی منزل، اس منزل میں سنسکرت کو سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہو گئی اور اس کا تعلق پروہت جماعت سے ٹوٹ گیا۔ خزانہ الفاظ میں عام لوگوں کی بولیوں کے لفظ کثرت سے شامل ہو گئے۔(۵) ٹکسالی منزل، اس منزل میں سنسکرت صرف و نحو میں قید ہوکر ایک مصنوعی زبان رہ گئی۔مختلف علمائے لسان نے سنسکرت کی تاریخ کومختلف ادوار میں تقسیم کیا ہے لیکن نتائج کے لحاظ سے بھی اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ بول چال کی زبانوں کا دباؤ آہستہ آہستہ سنسکرت پر بڑھتا گیا اور اگرچہ ادیچیہ نے قدیم خصوصیات کو زیادہ سے زیادہ برقرار رکھا لیکن مشرقی اور وسطی علاقوں یعنی پراچیہ اور مدھیہ ویشیہ میں زمین لسانی انقلاب کے لے تیار رہی۔ ڈاکٹر بھنڈار کرنے بھی قدیم ہند آریائی کو تین ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق پہلے دورمیں رگ وید اور یجروید اور اتھروید کے قدیم ترین حصے رکھے جا سکتے ہیں۔ درمیانی عہد براہمنہ، یاسک کے لغت اور پاننی کی اشٹ ادھیائے وغیرہ پر مشتمل ہے۔ تیسرا دور ادبی سنسکرت کا ہے۔ جس میں مشہور رزمیہ (رامائن اور مہابھارت) قدیم شعراء کا کلام، ناٹک، منظوم سمرتیاں، منوسمرتی اور کاتیائن اور پاتن جلی کی شرحیں اور حواشی وغیرہ شامل ہیں۔ڈاکٹر سنیتی کمار چٹرجی نے کئی محققوں کی رایوں کا موازنہ کرنے کے بعدیہ نتیجہ نکالا ہے کہ رگ وید تقریباً ایک ہزار سال قبل مسیح میں تحریر کئے گئے۔ اگرچہ اس وقت اس کا قدیم نسخہ ایک ہزار سال سے زیادہ قدیم نہیں۔ رسم الخط کے فرق نے آوازوں کی صوتی خصوصیات اور تلفظ پر جو اثر ڈالا ہوگا وہ بھی نظر انداز کئے جانے کی چیز نہیں ہے۔ تاہم خود قدیم زبانوں میں جو فرق تھے وہ سنسکرت اور دوسری بولیوں کے فرق کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مثلاً ادیچیہ کی خصو صیت یہ تھی کہ اس میں (ر) اور (ل) دونوں کے لئے (ر) کی آواز استعمال ہوتی تھی۔ اس کے برعکس پراچیہ میں (ر) کی جگہ بھی (ل) ہی سے کام لیا جاتا تھا۔یہ خصوصیت وسطی ہند آریائی اور جدید ہند آریائی کے ادوار میں بھی بڑی حد تک باقی رہی۔ یہ اور ایسے فرق اتنے اہم قرار دیے گئے کہ مغربی ہندوستان کے آریہ، مشرقی ہندوستان کے آریوں کے اسر (خبیث روح) اور ان کی زبان کو ’’اشدھ‘‘ (نادرست یا غلط) قرار دیتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مغرب و مشرق کے اس فرق کو وسطی علاقے نے کم کیا اور آہستہ آہستہ وہی علاقہ امتیازی حیثیت اختیار کر گیا۔ اس وقت تک کی بحث پر نظر رکھ کرہم حسب ذیل نتائج نکال سکتے ہیں،(۱) ہند یوروپی کا وہ گروہ جو ایران میں بس گیا، اس کی زبانوں کے مجموعے کو ہند ایرانی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اسی ہند ایرانی کے بعض قبیلے تقریباً ڈیڑھ ہزار سال قبل مسیح سے ہندوستان میں آنے لگے، یہاں انہوں نے آسٹرک اور دراوڑ زبانوں کو دباکر اور شمالی ہند سے ہٹاکر اپنی زبانیں رائج کیں جنہیں ہند آریائی کہا جاتا ہے۔ اسی کا پہلا دور قدیم ہند آریائی ہے۔(۲) قدیم ہند آریائی کی اہم ترین زبان سنسکرت ہے جو رگ وید سے شروع ہوکر مختلف منزلوں سے گزرتی ہے۔ چھ سو سال قبل مسیح تک کوئی دوسری بان اس کی حریف نہ بن سکی۔(۳) سنسکرت کسی وقت عام لوگوں کی زبان نہیں رہی، اگرچہ دوسری بولیاں اس سے متاثر ہوتی رہیں۔ خاص خاص طبقے سنسکرت کی ادبی شکل استعمال کرتے رہے، عوام ملی جلی زبانیں استعمال کرتے رہے۔(۴) مغربی آریہ ورت کی زبان، مشرقی اور وسطی کے مقابلے میں زیادہ صحیح فصیح اور اعلیٰ خیال کی جاتی تھی۔(۵) عوم کی بولی سے دور ہونے، قواعد میں بہت زیادہ جکڑی ہوئی ہونے کی وجہ سے عام لوگ سنسکرت سے دور ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ آہستہ آہستہ دوسری فطری بولیاں اس کی حریف بنتی گئیں اور جیسے ہی گوتم بدھ اور مہاویر نے اپنے مذاہب کی اشاعت عوام میں شروع کی، ان دبی ہوئی بولیوں کو ابھرنے کا موقع مل گیا۔(۶) سنسکرت کی مختلف ارتقائی منزلوں کا مطالعہ رگ وید اور دوسرے ویدوں براہمنوں، سوتروں، سمرتیوں، اپنشدوں، شاستروں، قواعد اور لغت کی کتابوں کے علاوہ رامائن، مہابھارت اور ناٹکوں کی مدد سے کرنا چاہئے۔یہ قدیم ہند آریائی کا ذکر تھا جس نے وسطی ہند آریائی کے لئے جگہ خالی کی۔ ڈاکٹر سنیتی کمار چٹرجی اور ڈاکٹر کاترے نے اشارہ کیا ہے کہ وسطی ہند آریائی کی بعض خصوصیات نے سنسکرت کو بھی متاثر کرنا شروع کر دیا تھا اور یہ اثرات خاص طور سے پراچیہ اور کسی حد تک مدھیہ ویشیہ میں نمایاں تھے۔(۵)وسطی ہند آریائی تقریباً سولہ سو سال (۶۰۰ق م تا ۱۰۰۰ء) پر محیط ہے۔ اسے اکثر پراکرتوں کے دور سے موسوم کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں مہذب، فصیح اور سنواری ہوئی سنسکرت کے مقابلے میں ان گڑھ، فطری اور عوامی بولیوں کا عروج ہوا۔ پراکرتیں بہت متنوع اور جغرافیائی حدبندی کے اعتبار سے ایک دوسرے میں گڈمڈ ہیں۔ بدقسمتی سے اس دور کے قواعد نویسوں میں یاسک، پاننی اور پاتن جلی کے پایہ کے عالم نہیں پیدا ہوئے، اس لئے تمام پراکرتوں کی واضح تصویر ہمارے سامنے نہیں آتی۔ حقیقت یہ ہے کہ پراکرتوں پر تاریخی اور توضیحی لسانیات کے نقطہ نظر سے صرف بیسویں صدی میں کچھ کام ہوا ہے جس سے اس کی وسعت اور تنوع کا اندازہ ہوتا ہے اس ضمن میں پشل (Pischel) وولنرWoolner گانگر Geneger بلاک Block چٹرجی اور کاترے کے تحقیقی کاموں کی بڑی اہمیت ہے۔زمانی تعین کے لحاظ سے وسطی ہند آریائی کا دور گوتم بدھ اور مہابیر کے عہد سے شروع کیا جاتا ہے۔ کیونکہ ایک مشہور روایت کے مطابق جب گوتم بدھ نے اپنے خیالات کی تلقین مگدھ دیش کی اس بولی میں شروع کی جو وہاں کے عوام استعمال کرتے تھے تو ان کے دو عالم شاگردوں نے خواہش ظاہر کی، اگر اجازت ہو تو یہ تعلیمات سنسکرت میں منتقل کر دی جائیں لیکن گوتم بدھ نے انہیں سختی سے روک دیا اور کہا کہ عوام ان خیالات سے اسی زبان میں واقفیت حاصل کریں گے جو وہ بولتے ہیں۔ تاریخ لسانی میں اس سے اہم فیصلہ مشکل ہی سے کبھی کیا گیا ہوگا۔ کچھ ایسا ہی جین مت کے بانی مہابیر نے بھی کیا۔ نتیجہ یہ ہوا مذہبی کاموں کے لئے بھی سنسکرت کی جگہ بول چال کی زبانیں استعمال کی جانے لگیں۔شمالی ہندوستان کی اس وقت کی لسانی صورت حال ڈاکٹر چٹرجی نے (انڈوایرین اینڈ ہندی ص ۶۳دوسرا ایڈیشن ۱۹۶۰ کلکتہ) کچھ اس طرح پیش کی ہے۔(۱) ادیچیہ، مدھیہ دیشیہ اور پراچیہ میں ادیجیہ ویدک سنسکرت سے سب سے زیادہ قریب تھی اور پراچیہ بہت دور۔ غالباً ایک دکشنیہ (دکنی) بھی تھی۔ غیرآریائی اثرات ان سب پر پڑ رہے تھے۔(۲) قدیم اور کم استعمال ہونے والی شاعری کی زبان چھاندس تھی جس کا مطالعہ برہمن کرتے تھے۔ یہی قدیم ترین ادبی صنف تھی۔(۳) اس دوسری بولی کی بعد کی شکل وہ زبان تھی جس میں برہمن ویدوں کی شرح مذہبی اور فلسفیانہ رسائل تصنیف کرتے تھے اور جو زبان براہمنوں (مذہبی کتابوں) میں پائی جاتی ہے۔ یہ زبان ادیچیہ کی وہ شکل تھی جس میں مدھیہ ویشیہ اور پراچیہ کی آمیزش تھی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ کم سے کم مشرقی ہندوستان میں گوتم بدھ سے پہلے ہی بول چال کی زبانیں اچھی خاصی ترقی یافتہ شکل میں موجود تھیں جو سنسکرت سے بے نیاز تو نہیں تھیں لیکن اپنے ارتقاء میں آزاد تھیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بدھؔ اور مہابیرؔ نے ان کی مختلف شکلوں کو اظہار خیال کے لئے کافی نہ سمجھا ہوتا۔ بہرحال ہند آریائی کے ارتقا کی یہ دوسری منزل اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ یہ بول چال کی اس زبان کے تسلسل کی نشاندہی کرتی ہے جسے سنسکرت کے عالموں اور قواعد دانوں نے تقریباً نظرانداز کر دیا تھا۔ ہمارے لئے ان پراکرتوں کامطالعہ اس لئے بہت زیادہ مفید اور ضروری ہے کہ اپنی جدید بھاشاؤں کی قواعدی ساخت کے سمجھنے میں ہمیں سنسکرت کے مقابلے میں ان سے زیادہ مدد مل سکتی ہے۔پروفیسر کاترےؔ نے (پراکرت لینگویجز ص ۹۔ ۱۰ بمبئی ۱۹۴۵) پراکرتوں کی مختلف قسموں کا ذکر کرتے ہوئے ان کے مطالعے کے لئے حسب ذیل عنوانات قائم کئے ہیں۔(۱) مذہبی پراکرتیں، جن میں پالی، اودھ ماگدھی (جسے علما نے آرش بھی کہا ہے) جینیوں کی مذہبی تصانیف میں استعمال کی ہوئی مہاراشٹری اور شورسینی اور وہ اپ بھرنش شامل ہیں جن سے جین علما نے کام لیا ہے۔(۲) ادبی پراکرتیں، جن میں مہاراشٹری، شورسینی، ماگدھی، پشاچی اور اپ بھرنش کی مختلف قسمیں شامل ہیں۔(۳) ناٹکوں کی پراکرتیں، ان میں بھی مہاراشٹری، شورسینی اور ماگدھی اوراس کی قسمیں، قدیم اردھ ماگدھی، جس سے اشوگھوش نے اپنے ناٹکوں میں کام لیا اور بعض چھوٹی پراکرتیں شامل ہیں۔(۴) قواعد دانوں کی پیش کی ہوئی پراکرتیں، جیسے مہاراشٹری، شورسینی، ماگدھی، پشاچی، چولیکاپشاچی اوراپ بھرنش۔(۵) ہندوستان کے باہر کی پراکرتیں، جیسے ختنی جوکھروشٹی رسم الخط میں ملتی ہے اور وسط ایشیا کی بعض دوسری بولیاں۔(۶) کنبوں کی پراکرتیں، جو اشوک کے عہد سے ملنا شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ زیادہ تر براہمی اور کھروشٹی رسم خط میں ہندوستان اور سیلون میں ملتی ہیں۔ انہیں میں تانبے کے پتروں پر لکھی ہوئی تحریریں اور سکوں کے نقوش بھی شامل کر لینے چاہئیں۔(۷) عوامی سنسکرت، صحیح، مستند اور اعلیٰ سنسکرت کی حدوں کے باہر بگڑی ہوئی سنسکرت جو بول چال کے لئے یا عام ادبی کاموں کے لئے کام میں لائی جاتی تھی۔اس سے پراکرتوں کی مختلف قسموں اوران کے وسیع علاقوں کا کچھ اندازہ ہوتا ہے اوریہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سنسکرت کے باہر زبانوں کی ایک اور دنیا آباد تھی۔ ان پراکرتوں کے علاقوں، آپس کے تعلقات اور ان کی ذیلی قسموں کے متعلق مشکل ہی ہے کہ کوئی دوعالم متفق نظر آئیں گے۔ قدیم قواعد دانوں مثلاً ہیم چند، مارکنڈے اور کرمدیشور وغیرہ نے پراکرت تصانیف کی کمیابی کی وجہ سے ان میں سے صرف مہاراشٹری، ماگدھی، شورسینی، پشاچی اور اپ بھرنش کا ذکر کیا۔ پالی کے متعلق تفصیلی معلومات دور حاضر ہی میں یکجا ہوئی ہیں۔ کتبو ں کی مدد سے قدیمی پراکرتوں کی لسانی خصوصیات کو سمجھنے کی کوشش بھی اسی عہد میں کی گئی ہے۔آج بھی ایسے علماء ملتے ہیں جو پالی کو ماگدھی کی شاخ بتاتے ہیں۔ مہاراشٹری کو شورسینی کی ایک ترقی یافتہ شکل کہتے ہیں اور اردھ ماگدھی کو بھی ماگدھی اور شورسینی سے، کبھی ماگدھی اور سنسکرت سے مرکب بتاتے ہیں۔ قدیم قواعد نویسوں نے کیکئی وراچڈی، ناگر اور اپ ناگر کو نظر انداز کیا ہے۔ موجودہ دور کے بعض ماہرین انہیں بھی پراکرتوں میں شمار کرتے ہیں۔ اس طرح وسطی دور کی ہند آریائی کا مطالعہ بہت پیچیدہ اور مشکل بن جاتا ہے۔ بہرحال مختصراً ان کے بعض پہلوؤں کا مطالعہ اس درمیانی دور کی لسانی صورت حال کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے۔پالی کے اصل معنی خط، لکیر یا حدبندی کے ہیں لیکن بعد میں بدھ مت کے ہیں۔ یان طبقے نے اپنی مقدس کتابیں جس عبارت میں لکھیں اس کا نام پالی پڑ گیا۔ یہ کوئی متعین، یک رنگ اور کٹی چھٹی زبان نہیں ہے بلکہ عہد وسطیٰ کی کئی بولیوں کی آمیزش سے وجود میں آئی ہے۔ کتبوں اور بودھی کتابوں کے مطالعہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس زبان کا سلسلہ تیسری صدی قبل مسیح سے تقریباً گیارہویں صدی عیسوی تک رہا۔ پھر یہ محض ایک علمی زبان بن کر رہ گئی۔ اگرچہ اکثر علما نے اسے مشرقی علاقے مگدھ یا کوشل کی زبان کہا ہے لیکن اپنی ساخت کے اعتبار سے یہ مشرقی نہیں وسطی علاقے سے متعلق معلوم ہوتی ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ بدھ کی تعلیمات تو مگدھ کی مقامی بولی میں دی گئیں لیکن سو دو سو سال گزر جانے کے بعد جب ان کے لکھنے کی نوبت آئی تو یہ تعلیمات مشرق کے بجائے وسطی علاقے کی بولی میں لکھی گئیں، جسے جلد ہی ادبی حیثیت حاصل ہو گئی۔ پالی کا تعلق ادبی سنسکرت سے برائے نام ہے بلکہ اس ابتدائی آریائی سے جوڑا جا سکتا ہے، جس نے ویدک سنسکرت کو جنم دیا۔ اس کا علاقہ بھی دراصل مشرقی ہندوستان نہیں وسطی ہندوستان قرار دیا جانا چاہئے۔ دھمید اور جانکا اس کی اہم تصانیف ہیں۔اشوک کے کتبے جس بولی میں پائے جاتے ہیں، آسانی کے لئے انہیں اشوکی پراکرت کہا گیا ہے۔ یہ کتبے ستونوں، چٹانوں اور غاروں کی دیواروں پر جگہ جگہ ملتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کا زمانہ ۲۶۲ق م سے ۲۵۰ق م تک قرار دیا جاتا ہے۔ ان کتبوں میں بدھ کی تعلیمات کو عام کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ احکام دارالحکومت سے اودھ ماگدھی میں بھیجے جاتے تھے اور مختلف مقامات کی بولیوں کے لحاظ سے ان میں تھوڑی بہت ترمیم کر لی جاتی تھی۔ یہ کتبے زیادہ تر براہمی رسم خط میں ہیں۔ صرف شہباز گڑھی اور مانسہرہ کے کتبے کھروشٹی میں ہیں۔ ان میں سے خاص خاص کتبے گرنارکالی، جوگڈا، سہسرام، بیراٹ، دہلی، الہ آبااد وغیرہ میں ملتے ہیں۔ اشوکی پراکرتوں کے علاوہ کچھ کتبے اور بھی پائے جاتے ہیں جو بعد کے ہیں۔ ان سب کی زبانیں یکساں نہیں ہیں بلکہ مختلف علاقوں کے لحاظ سے ان کی شکلیں بدلی ہوئی ہیں۔ انہیں بھی مخلوط قسم کی پراکرتیں کہا جا سکتا ہے۔جین مت کے علماء نے جن پراکرتوں سے کام لیا ان میں سب سے اہم اردھ ماگدھی ہے۔ اس پراکرت کے متعلق بھی بڑے اختلافات ہیں۔ اردھ (ادھ آدھی) ماگدھی کے نام ہی سے اس کے علاقے کا اندازہ تو ہو جاتا ہے۔ لیکن مذہبی اہمیت کی وجہ سے اس کا شمار بھی ان مقدس زبانوں میں کرنا چاہئے جو مذہب کے ساتھ مختلف علاقوں میں پہنچی ہیں۔ اس کا اصل علاقہ ماگدھی اور شورسینی کے درمیان کا ہے۔وہ پراکرت جسے صرف مذہب کی وجہ سے اہمیت حاصل نہیں ہوئی مدھیہ پردیش کی شورسینی ہے جس کا صدر مقام متھرا تھا۔ اس کا علاقہ مشرقی پنجاب سے الہ آباد تک قرار دیا جاتا ہے۔ کچھ علماء نے اسے برج بھاشا کی قدیم شکل اور کچھ نے سنسکرت کی جانشین قرار دیا ہے۔ اپنی اہمیت کی وجہ سے یہ اردھ ماگدھی، ماگدھی اور مہاراشٹری کے علاقوں میں بھی سمجھی جاتی تھی۔ اسی علاقے میں چند صدیاں گزرنے کے بعد بولیوں کے اس نئے گروہ کا نشوونما ہوا جس میں اردو اور ہندی بھی شامل ہیں۔ اسی کے بعد کے ارتقا کو گریرسن نے مغربی ہندی کا گروہ قرار دیا ہے۔ اردو ہندی کے نشوونما کے سلسلہ میں اس کا مطالعہ سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ شورسینی کے کچھ نمونے سنسکرت ڈراموں میں ملتے ہیں جہاں عام کردار نثر کے لئے شورسینی اور گیت یا نظم کے لئے مہاراشٹری استعمال کرتے ہیں۔ماگدھی مشرقی ہندوستان اور جنوبی بہار کی پراکرت تھی۔ بعض اوقات اسی کو پالی سمجھا گیا جو صحیح نہیں۔ اب اس کی جانشین آسامی، بنگالی اور اڑیا ہیں۔مہاراشٹری پراکرت نے مہاراشٹر کے علاقے میں فروغ پایا۔ پراکرت کے قواعد نویسوں نے اس پر اکرت کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ درحقیقت انہوں نے صرف اسی کی قواعد سے بحث کی ہے اور دوسری پراکرتوں کا صرف ضمناً ذکر کیا ہے۔ سنسکرت ڈراموں میں اس پراکرت کا استعمال کثرت سے ہوا ہے۔ من موہن گھوش کی تحقیقات کی بنا پر ڈاکٹر سنیتی کمار چٹرجی نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ مہاراشٹری پراکرت کی الگ کوئی حیثیت نہیں بلکہ وہ شورسینی کا ایک ترقی یافتہ روپ ہے جسے شورسینی پراکرت، اپ بھرنش کے درمیان میں جگہ دے سکتے ہیں۔پشاچی پراکرت کا نشوونما شمالی ہندوستان میں ہوا۔ بعض کشمیری بولیوں کا تعلق اسی پراکرت سے ہے۔ خالص اور مستند آریائی زبانیں بولنے والے اس زبان کو راکشسوں اور گوشت کھانے والے گرے ہوئے لوگوں کی زبان کہتے تھے۔ جیسا کہ اس کا نام (پشاچ، شیطان، گوشت خور) سے ظاہر ہے۔ اس پراکرت کی ابتدائی تصانیف ضائع ہو گئی ہیں۔ لیکن بعد کے حوالوں کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا عروج ابتدائی کئی صدیوں میں ہوا۔ان خاص پراکرتوں کے علاوہ بعض کتابوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مغربی پنجاب میں کیکئی، سندھ میں وراچڈی اور گجرات اور راجستھان کے بعض حصوں میں ناگر پراکرت کا رواج تھا۔ ممکن ہے کہ بعد کی ارتقائی شکلیں ہوں۔ اسی وجہ سے اس عہد کے قواعد دانوں نے ان کا ذکر نہ کیا ہو۔(۶)وسطی ہند آریائی کے سلسلے میں ایک اور پراکرت، اپ بھرنش کا ذکر ملتا ہے۔ لیکن یہ بات بہت بحث طلب ہے کہ اسے ایک مخصوص اور منفرد پراکرت قرار دینا چاہئے یا پراکرتوں کی وہ حالت جن میں وہ بگڑ کر نئے لسانی سانچوں میں ڈھلنے کے لئے تیار ہو رہی تھیں جس طرح سنسکرت قواعد کی سخت گیری نے اسے عوام سے دور کیا تھا اسی طرح وسطی دور کی پراکرتیں بھی صدیوں مذہبی اور ادبی کاموں کے لئے استعمال ہونے کی وجہ سے بول چال کی زبان سے دور ہو گئیں اور بول چال کی زبانیں دریا کے ایک تیزرو دھارے کی طرح ساحلوں کو توڑتی اور اپنے ساتھ خس و خاشاک لیتی بہتی رہیں۔ادبی اور علمی زبانوں کے مقابلے میں وہ کم رتبہ سمجھی گئیں۔ اسی وجہ سے قواعد نویسوں نے انہیں اپ بھرنش یعنی بگڑی ہوئی، خراب اور گری پڑی زبانوں کے نام سے موسوم کیا۔ کچھ دن بعد ان بولیوں میں بھی سنت سادھو اپنے مذہبی جذبات کا اظہار کرنے لگے اور ان کا اثر پراکرتوں پر پڑنے لگا۔ شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ اپ بھرنش بولیوں کی اس سیال حالت کا نام ہے جس سے گزر کر پراکرتوں سے جدید آریائی بھاشا ئیں وجود میں آئیں۔ علمی حیثیت سے اس کا واضح جواب نہیں ملتا کہ اپ بھرنش سارے ہندوستان میں ایک پراکرت کی حٰثیت رکھتی تھی۔ ہر علاقے کی پراکرت بگڑ کر اپ بھرنش میں تبدیل ہو گئی تھی۔ آخرالذکر شکل زیادہ قرین قیاس ہے کیوں کہ ہم برابر مہاراشٹری، اپ بھرنش، شورسینی ابھرنش، ماگدھی اپ بھرنش غیرہ کی اصطلاحیں استعمال ہوتے دیکھتے ہیں۔اپ بھرنش کی دو خصوصیات قابل لحاظ ہیں۔ ایک تویہ کہ اس دور میں سنسکرت کے شدھ الفاظ اپنے اصل تلفظ اور معنی کے ساتھ بول چال کی زبانوں میں داخل نہیں ہوتے تھے۔ لسانیات کی زبان میں ہم اسے یوں کہیں گے کہ سنسکرت تت سم کے بجائے نیم تت سم تدبھو کا رواج تھا۔ دوسری خصوصیت یہ تھی کہ ایک ہی لفظ کے کئی کئی تدبھو ہوتے تھے یعنی ایک اصل لفظ جو سنسکرت سے اپ بھرنش میں منتقل ہوتا تھا، کئی طرح بولا جاتا تھا۔ یہی سبب ہے کہ سنسکرت کا ایک ہی لفظ مختلف زبانوں میں مختلف شکلوں میں ملتا ہے۔ اس طرح ہر پراکرت کی الگ الگ اپ بھرنش بن گئی۔ ان الگ الگ بولیوں کے تلفظ مختلف تھے۔ اور اس سے ہماری سمجھ میں یہ بات آسکتی ہے کہ ایک ایک پراکرت کے علاقے سے کئی کئی جدید زبانیں اور بولیاں کس طرح پیدا ہو گئیں۔جو شخص اردو کے ارتقا کا مطالعہ کرنا چاہتا ہے، اس کے لئے اپ بھرنشوں اور خاص کر شورسینی اپ بھرنش کا مطالعہ ناگزیر ہے کیونکہ مغربی ہند کی تمام بولیاں اسی کے مختلف روپ ہیں بلکہ یہ خیال بھی کچھ زیادہ غلط نہ ہوگا کہ جدید ہند آریائی کا دور شروع ہونے سے پہلے مشرقی پنجاب کا علاقہ بھی اسی اپ بھرنش کے زیراثر رہا ہوگا ورنہ پنجابی اور کھڑی بولی کی گہری قواعدی مشابہت کی توجیہہ نہیں کی جا سکتی۔گویا مسلمانوں کے ہندوستان میں آباد ہونے سے پہلے ہند آریائی کے ارتقا کے دو طویل دور گزر چکے تھے، قدیم ہند آریائی میں سنسکرت کو خصوصیت حاصل رہی ہے۔ لیکن بول چال کی زبانیں بھی اس کے متوازی چلتی رہیں، وہ سنسکرت سے متاثر ہوتی رہیں لیکن اس میں ضم نہیں ہوئیں۔ یہاں تک کہ انہیں بھی گوتم بدھ، مہابیرجین کے زمانے میں علمی، فلسفیانہ اور ادبی زبانیں بننے کا موقع ملا۔ ان بولیوں کو پراکت کہا گیا ہے تاکہ انہیں مہذب سنسکرت سے متمائز کیا جا سکے۔ یہ پراکرتیں مختلف علاقوں میں اس طرح پھیلیں کہ آسام، بنگال، اڑیسہ اور بہار کے کچھ حصوں میں ماگدھی نے رواج پایا۔ بہار اور مشرقی یوپی میں اردھ ماگدھی نے، مشرقی یوپی سے مغربی پنجاب کی سرحد تک شورسینی نے (اسی میدان میں پالی ایک مذہبی زبان کی حیثیت سے نہ صرف شمالی ہندوستان کے بڑے حصے میں بلکہ بدھ مذہب کے ساتھ ساتھ تبت سیلون اور دوسرے علاقوں میں بھی پھیل گئی) مہاراشٹر میں مہاراشٹری نے عروج حاصل کیا۔ کشمیر میں پشاچی نے، گجرات اور جنوبی مغربی راجپوتانہ میں ناگر اور اپ ناگر نے، سندھ میں وراچڈی نے اور مغربی پنجاب میں کیکئی نے۔یہ سلسلہ تقریباً ۸۰۰ء تک چلتا رہا اور پھر بول چال کی زبانوں میں تغیرات شروع ہوئے جنہیں اپ بھرنش کے نام سے موسوم کیا گیا۔ یہ صورت حال تھی کہ مسلمان ۱۰۰۰ء کے قریب سے باقاعدہ ہندوستان میں داخل ہوئے۔ یہ زمانہ ہندوستان کی لسانی تاریخ کے نقطہ نظر سے بہت اہم ہے کیونکہ اسی زمانے میں پراکرتوں اور اپ بھرنشوں کے بعض روپ جدید بھاشاؤں کی شکل اختیار کر رہے تھے۔اپ بھرنشوں نے نکھر کر جدید ہند آریائی بھاشاؤں کا روپ دھارا لیکن وسطی دور سے جدید دور تک پہنچتے پہنچتے پانچ سو سال سے زیادہ لگ گئے۔ بہت سے تاریخی اسباب نے اس منزل کو آسان بنایا۔ اگر اس وقت کی عوامی مذہبی تحریکوں کو مضبوط حکومتوں کے قیام اور وسائل آمدورفت کی آسانیوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے آباد ہو جانے کی وجہ سے اس ناگزیر صورت کو بھی پیش نگاہ رکھا جائے کہ اب زبانوں کے لئے یہ ضروری ہو گیا تھا کہ وہ نئے حالات کے مطابق بننے کے لئے اپنے اندرا ہم صوتی اور لسانی تغیرات کے لئے تیار ہو جائیں تو ہم بڑی آسانی سے جدید بھاشاؤں کے وجود اور ارتقا کو سمجھ سکتے ہیں۔ڈاکٹر چٹرجی کا خیال ہے کہ اگر مسلمانوں نے ہندوستان میں فتوحات نہ حاصل کی ہوتیں تو بھی جدید ہند آریائی زبانیں نہ بنتیں لیکن انہیں جو باوقار ادبی حیثیت حاصل ہو گئی اس میں ضرور دیر ہوتی۔ اس طرح اردو کے لئے زمین ہموار ہو گئی جس کا رشتہ براہ راست سنسکرت سے نہیں بلکہ اپ بھرنش اور بول چال کی شورسینی پراکرت سے ہوتا ہوا اس آریائی ماخذ تک پہنچ جاتا ہے جس نے خود ویدک سنسکرت اور سنسکرت کو جنم دیا تھا اور جس کا دھارا عام لوگوں کی بول چال میں ساڑھے تین ہزار سال سے بہہ رہا ہے۔مزید مطالعہ کے لئے دیکھئے،(1) R.Pischel، Grammer of Prakrit(2) Woolner، Introduction of Prakrit(3) S.K.Chatter Ji، Indo Aryan and Hindi(4) S.M. Katre، Prakrit Languages(5) S.M. Katre، Some Problems of Historical Linguistics in IndoAryan(6) Keith، Sanskrit Literature(۷) ڈاکٹر سدھیشو ورما                        آریائی زبانیں(۸) ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ               ہندوستانی لسانیات(۹) ڈاکٹر مسعود حسین خاں                   تاریخ زبان اردو(۱۰) ڈاکٹر شوکت سبزواری                   اردو زبان کا ارتقا(۱۱) سید احتشام حسین                        ہندستانی لسانیات کا خاکہ(۱۲) ڈاکٹر دھریندر ورما                      ہندی بھاشا کا اتہاس(۱۳) ڈاکٹراودے نارائن تیواری                 ہندی بھاشاؤں کا وکاس(۱۴) ڈاکٹر رام بابو سکسینہ                    سامانیہ بھاشا وگیان