ہجر کا قصہ بہت لمبا نہیں بس رات بھر ہے

ہجر کا قصہ بہت لمبا نہیں بس رات بھر ہے
ایک سناٹا مگر چھایا ہوا احساس پر ہے


اک سمندر بے حسی کا ایک کشتی آرزو کی
ہائے کتنی مختصر لوگوں کی روداد سفر ہے


میں ازل سے چل رہا ہوں تھک گیا ہوں سوچتا ہوں
کیا تری دنیا میں ہر منزل نشان رہ گزر ہے


اس فصیل غم کو سر کرنے پہ بھی کیا مل سکے گا
ایک دیوار ہوا ہے ایک تیرا سنگ در ہے


ڈوبنے والے ستارے کو بھلا کب تک پکارے
زندگی کی رات کو سورج کے ہنس دینے کا ڈر ہے


دیکھ لے مجھ کو ابھی کچھ روشنی باقی ہے مجھ میں
شام تک اک ریت کا طوفان آنے کی خبر ہے