اگر کوئی حجاب کرے تو اس پر اعتراض کیوں
چند دنوں پہلے فیس بک پر ایک غیر ملکی بلاگر نے پاکستان آکر ؎ چند مقامات پر قیام کیا اور اس کی وڈیو اپلوڈ کی تھی ۔یہاں اس نے کراچی کے ایک جانے مانے فائیو اسٹار ہوٹل میں بھی قیام کیا۔ ہوٹل کی داخلی دروازے سے لے کر کمرے کی بھی تفصیلی وڈیو اس نے شئیر کی، مجھے یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کے کمرے میں ایک ذاتی منی بار تھا جس میں شراب کی بوتلیں رکھی ہوئی تھیں۔مطلب شراب اسلام میں حرام ہے، ہم ایک اسلامی مملکت میں رہتے ہیں، مگر ہم کھلم کھلا دوسروں کو شراب آفر کرسکتے ہیں۔اور اس میں کوئی معیوب بات نہیں۔تو کیا ہوا جو یہ ہماری تہذیب کا حصہ نہیں، کیا ہوا جو یہ ام الخبائث ہے ۔کچھ معاملات میں مصلحت پسندی سے کام لینا پڑتا۔
”سگریٹ نوشی صحت کے لیے مضر ہے۔ “یہ جملہ کسی قول کی طرح ہم بچپن سے سن رہے ہیں اور ہمیں ازبر ہے ۔نشہ اسلام میں جائز نہیں مگر فلموں، ڈراموں حتیٰ کہ روزمرہ کی زندگی میں بھی سگریٹ پینا ایک خاص طبقے کے لیے اسٹائل تصور کیا جاتا ہے۔یہ الگ بات کہ غریب اگر سگریٹ پئیے تو اسے نشئی کا خطاب مل جاتا ہے۔مگر جیسے بھی کرکے ہم نے اسے تسلیم کر لیا ہے اور سگریٹ پینے والوں کو کوئی نہیں روکتا نہ ہی نصیحت کرتا ہے۔
پاکستانی فلموں اور ڈراموں میں پہلے قابلِ اعتراض سین ناظریں تک پہنچ ہی نہیں پاتے تھے، چاہے وہ فلم یا ڈرامے کا اہم سین ہی کیوں نہ ہواسے کاٹ دیا جاتا تھا۔مگر اب جتنے واہیات سین اور جتنے واہیات ڈائیلاگس ہوں گے ڈرامہ اتنا ہی ہٹ ہو جائے گا۔یہاں شبہ ہوتا ہے کہ سینسر بورڈ والوں کے گھر بجلی نہیں یا کیبل؟ بیچارے نشر ہونے سے پہلے دیکھ ہی نہیں پاتے۔سونے پہ سہاگہ یہ کہ اگر زیادہ ہی واہیات سین نشر ہوا تو اسے میڈیا پر اتنا اچھالا جاتا ہے ، اتنا ڈسکس کیا جاتا ہے کہ جس نے وہ ڈرامہ یا فلم نہیں دیکھی ہوتی وہ بھی تجسس کی وجہ سے اس سے فیض یاب ہوتا ہے اور ایسے ریٹنگ بڑھتی جاتی ہے۔۔۔
ان سارے واقعات کو بیان کرنے کا اصل مقصد یہاں یہ ہے کہ معاملہ چاہے کچھ بھی ہو کتنا بھی غیر اخلاقی کیوں نہ ہو ہم اسے جلد یا بدیر تسلیم کرکے اسے اپنی ثقافت میں شامل کر ہی لیتے ہیں،مگرعورتوں کے حقوق کی بات ہو یا ان کے فرائض کی،ان کو دی گئی آزادی پر بحث ہو یا ان پر لگائی جانے والی بے جا پابندیوں کا تذکرہ۔ اونٹ کسی ایک کڑوٹ بیٹھتا ہی نہیں ہے۔مسلمانوں کے پاس ہدایت کے لیے خدا کی طرف سے عطا کیا گیا جو ایک بہترین نسخہ ہے۔ ہرصاحبِ علم اپنی ذہانت کے حساب سے آسان لفظوں میں نازل کی گئی آیتوں کے کچھ الگ ہی ترجمے بیان کر کے روز مرہ کے معاملات میں درپیش آسان مسائل کا بھی کچھ گھمبیر حل بیان کرتے ہیں۔ چنانچہ مسئلہ وہیں رہ جاتا ہے اور حل پر ایک بحث جاری ہوجاتی ہے۔
اب عورتوں کے حجاب کی ہی بات کریں تو ایسا لگتا ہے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے ۔حجاب کیا جائے نہ کیا جائے، کیا جائے تو کتنا اور کیسے کیا جائے، کس کس سے کیا جائے۔کہاں کیا جائے کہاں نہ کیا جائے۔
ایمان محض زبان سے اقرار کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ دل سے ماننے کا نام ہے۔ دراصل مسلمانوں کےبہت سے مسائل عادات اور ثقافت بعض متعصب طبقوں کے لیے ہمیشہ زیرِ بحث رہے ہیں۔حالیہ دور میں چندمخصوص گروہ مسلمانوں کی اصلاح کے لیے زیادہ ہی پیش پیش ہیں۔لیکن افسوس اس وقت ہوتا ہے جب بہت سارے "مسلم ایلیٹ“ دانشور روشن خیال سرکاری عہدے پر فائز نفیس انگلش اسپیکنگ بڑے بزنس مین بهی وہی راگ الاپتے ہیں جسے غیر مسلم متعصب گروہوں نے چهیڑ رکها ہے۔ اس کی وجہ یا تو یہ ہے مسلمانوں کا یہ طبقہ اسلامی تعلیمات سے بے خبر ہے یا یہ کہ اکثریتی طبقہ ان متعصب یا لبرل گروہوں کی بے جا خوشنودی حاصل کرنے کے خواہاں ہے۔
دراصل یہ مسلمانوں کا وہ طبقہ ہے جو مغربی طرزِ زندگی سے بہت مرعوب ہے، ویسے تو اپنے آپ کو آزاد کہتا ہے مگر درحقیقت وہ ذہنی غلام ہوتا ہے متعصب لوگوں کی دی ہوئی زبان بولتا ہے۔ مسلمانوں کا یہ طبقہ دینِ اسلام کو لے کر نہ صرف خود تنقید کا شکار ہوتا ہے بلکہ اس کی ترویج و اشاعت میں معاون ہوتا ہے۔ بقول اس مخصوص طبقے کے مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی پسماندگی کا سبب مسلم خواتین کا پردہ اور مردوں کی با حیائی اور دین سے لگاؤ ہے۔ سوچ مغربی اور نہایت پست ہے مگر افسوس ہمارا روشن خیال دانشور طبقہ جب خود یہ سمجهتا ہے کہ مسلمانوں کی پسماندگی کی اصل وجہ دین ہے تو وہ ہماری نمائندگی ان غیر مسلم طبقوں کے سامنے کیا کرے گا۔
چند دنوں پہلے فیس بک پر ایک گروپ میں ایک خاتون نے اپنے ساتھ پیش آنے والا ایک واقعہ بیان کیا وہ لکھتی ہیں کہ ”میں DHA کے ایک علاقے میں رہائش پذیر ہوں، الحمدﷲ مکمل پردہ کرتی ہوں،میرے بچے دینی سکول میں جاتے ہیں اس لیے ان کا یونیفارم شلوار قمیص اور ٹوپی ہے،کچھ سالوں پہلے میں بچوں کو سکول سے ڈائریکٹ ڈاکٹر کے پاس لے کر گئی۔وہاں ایک کافی بڑی سلیبرٹی موجود تھیں میں جتنی دیر وہاں بیٹھی وہ خاتوں مجھے مسلسل عجیب نظروں سے گھورتی رہیں،اور میں انہیں اگنور کرتی رہی۔جب اتفاقً ہمارا ساتھ کھڑے ہونے کا موقع آیا تو ا نہوں نے پوچھا۔” شوہر کروا رہا ہے نا یہ سب پردہ بھی اور بچوں کو بھی ایسے اسکول میں اسی نے ڈلوایا ہے نا؟دیکھو بچوں کے اوپر زور زبردستی مت کرنا، انہیں اپنی لائف بنانے دینا۔ زبردستی نہیں کروایا جاتا کچھ بھی اور ایسے مردوں کو تو کیا بولیں۔“ میرے جواب دینے سے پہلے یا دینے کا موقع دیے بغیر انہوں نے اپنی پوری کہانی بتادی۔آج وہی سلیبرٹی اپنی بیٹی کے ساتھ بیٹھی ایک وڈیو میں کہہ رہی تھیں مر مر وب باتیں بنائیں۔
”پیلے اسکول میں ڈال دیا ہے، سب آگے نکل جائیں گے یہ پیچھے رہ جائیں گے۔۔“
” توبہ اتنا ظلم! ایک ٹی وی نہیں گھر میں۔“
حجاب اور ذاتی چوائسس بات کی جائے تو انڈیا پر تو نقاب لگانے پر جلسے ہوئے اور نیدر لینڈس میں حجاب پر پابندی کی بحث اب بھی جاری و ساری ہے۔
یہ کس قسم کا نظریہ ہے جج کرنے کا؟ یہی وہ طبقہ ہے جو اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تعلیمات کی صحیح صورتحال سے اہلِ وطن کو روشناس کرانے کی بجائے ان کی غلط فہمیوں یا دانستہ الزام تراشیوں کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے۔ سو سال قبل کے مفروضے یا حقائق – آزادئ نسواں، پردہ، تعلیم نسواں، انگریزی زبان کے خلاف فتویٰ وغیرہ کا گهسا پٹا ریکارڈ سنتے رہتا ہے بجاتے رہتا ہے اور سناتے رہتا ہے۔ مسلم ایشوز پر نئی ریسرچ نئے اعداد و شمار جاننے کی کبهی زحمت نہیں کرتا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ دنیا کی نظر میں امتِ مسلمہ ایک تنگ نظر اور پست ذہنیت رکھنے والی قوم کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔
جبکہ موجودہ صورتحال اس کے برعکس ہے۔کئی سرکاری اور دیگر غیر سرکاری این جی اوز کی رپورٹ بتاتی ہے کہ مسلم لڑکیوں میں لڑکوں کی بہ نسبت تعلیمی رجحان میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ ان کا ڈراپ آؤٹ کیس کی شرح مسلم بچوں کی بہ نسبت بہت کم ہے۔ جن دینی طبقہ کو انگریزی زبان اور عصری تعلیم کے خلاف آج بهی لعن طعن کیا جاتا ہے ان کے بچے انگلش میڈیم سے عصری تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ خواہ مدرسے کے معلمین ہوں یا مساجد کے امام ہر شخص اسی تگ و دو میں ہے کہ ان کی استطاعت کے مطابق فیس والے اچهے اسکول میں ان کے بچے اور بچیوں کا داخلہ ہو جائے۔
جانے یہ بحث کبھی ختم ہوگی بھی یا نہیں۔ مگر جہاں تک ذاتی جوائس کی بات ہے تو جو دنیا سے منفرد چوائسس یا اپنے دین کو چنتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کی جائے نہ کہ حوصلہ شکنی۔