حجاب کوئی نہیں ہے نقاب کوئی نہیں
حجاب کوئی نہیں ہے نقاب کوئی نہیں
مری کھلی ہوئی آنکھوں میں خواب کوئی نہیں
ہے بس سکوں ہی سکوں اضطراب کوئی نہیں
اس انقلاب کے بعد انقلاب کوئی نہیں
حیات عشق میں یہ وقفۂ سکوں کیسا
سوال کوئی نہیں ہے جواب کوئی نہیں
جہان علم کا یارو عجیب ہے دستور
کہ مدرسے تو بہت ہیں نصاب کوئی نہیں
شب سیہ میں بھلا کون آنے والا ہے
کوئی نہیں دل خانہ خراب کوئی نہیں
طلب کی راہ میں ہر شخص ہے برابر کا
یہاں سبھی ہیں سمندر سراب کوئی نہیں
شب فراق کچھ اس طرح مطمئن ہوں ضیاؔ
کہ جیسے دیدہ و دل پر عذاب کوئی نہیں