میسلو کا انسانی ضروریات کا نظریہ اور انسانی زندگی
اگرانسان کی نچلے درجے والی ضروریات مثلا جسمانی ضروریات پوری نہ ہوں تو یہ فرد کو اعلی درجے کی ضرورت یعنی خودشناسی کے درجے تک پہنچنے میں رکاوٹ بن جائے گی۔ اگر آدمی کو آکسیجن نہ ملے تو وہ اپنی پیاس بھول جائے گا ۔مفلسی میں انسان ایمان کو بھی بیچ ڈالتا ہے۔
ابراہام میسلوایک امریکی ماہر نفسیات تھےانھوں نے 1943 میں انسانی تحریک کا نظریہ پیش کیا اسے "انسانی ضروریات کی مخروط" یا انسان کی تحریک کا "نظریہ ضرورت" بھی کہا جاسکتا ہے۔(یہاں ہم کسی سیاسی نظریہ ضرورت کی بات نہیں کررہے ہیں!) جس میں انھوں نے انسانی ضروریات کی درجہ بندی کرتے ہوئے پانچ ضروریات کو تدریجاً بیان کیا گیا ہے۔ دراصل یہلوگوں کے اخلاق و عادات سے واقفیت کا نظریہ ہے۔جب عمومی طور پر ماہر نفسیات بیمار افراد کا مطالعہ کررہے تھے اس وقت میسلونے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں صحت مند لوگوں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
اس نظریے کو سمجھنے کے لیے آئیے آپ کو ایک کہانی سناتا ہوں !
کہانی بڑی مختصر اور سادہ ہے۔ یہ کہانی ہے محمد حسین کے گھر پیدا ہونے والے محمد اسلم کی جو محض میٹرک تک تعلیم حاصل کرسکا۔اسلم بچپن ہی سے بڑا ہوکر استاد بننا چاہتا تھا کیوں کہ وہ دیکھتا تھا کہ گاؤں میں استاتذہ کی بڑی عزت کی جاتی تھی۔ لیکن سرِ دست اس کے سامنے پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہونے کی وجہ سے گھر کی دال روٹی کے لیے اپنے والد کا ہاتھ بٹانا ضروری تھا ۔
اسلم اپنے والد کے ساتھ مل کر کام کرنے سے آمدن بڑھ گئی۔ اس کا چھوٹا بھائی اکرم بھی میٹرک کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد خاندانی کاروبار میں شریک ہوگیا۔ اس طرح آمدنی کئی گنا بڑھنے سے وہ آسودہ حال ہوگیے۔
چند برس بعد اسلم کی شادی اس کی چچازاد بہن سے ہوگئی۔ آمنہ بہت اچھی بیوی ثابت ہوئی، جس نے اسلم کی زندگی کو رنگوں اور خوشیوں سے بھر دیا ۔شادی کے ایک برس بعد خدا نے اسلم کو ایک چاند سا بیٹا عطا کیا۔اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے رشتے تلاش کرنے سے لے کر ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ سیٹل کرنے تک تمام مراحل میں اس نے اپنے والد کا ساتھ دیا۔اب وہ خود کو زیادہ معزز اور معتبر محسوس کرنے لگا تھا۔ ۔
کچھ عرصے بعد محمد حسین کے انتقال کے بعد اسلم کو خاندان کے بڑے کے طور پر تسلیم کیا جانے لگا۔ اسلم کے سب سے چھوٹے بھائی ارقم نے جب ماسٹرز کر لیا تو اسلم نے اسے اپنا سکول بنانے کا مشورہ دیا، جو اسے بہت پسند آیا۔ اسلم کو چونکہ پڑھانے کا شوق بچپن سے ہی تھا ، اس لیے اب فرصت کے اوقات میں وہ بھی ارقم کے ساتھ سکول کے انتظامی امور میں شامل ہونے لگا ۔ بڑے بھائی کے شوق اور دلچسپی کو دیکھتے ہوئے ارقم نے اسے اسکول کی چیئرمین شپ دے دی جو وہ بخیر و خوبی نبھانے لگا۔۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے اپنی کم تعلیم کے باوجود اسلم نے ادارے کو ایک مثالی ادارے میں تبدیل کر دیا۔ اسلم کو اب علاقے میں ایک ماہر تعلیم کے طور پر جاناجانے لگا تھا۔اب اسلم بہت مطمئن تھا۔۔۔ اسے لگتا تھا کہ اس نے اپنی زندگی کا مقصد پا لیا ہے۔
جی ! تو کیسے لگی محمد اسلم کی کہانی ؟
ہو سکتا ہے۔۔۔ آپ کو ایک عام سے انسان کی زندگی کی ایک عام سی کہانی جس میں نہ کوئی ڈراما تھا ، نہ تھرل ، نہ سپینس ۔۔۔۔ تھوڑی بورنگ سی لگی ہو ۔۔۔۔ لیکن یہ کہانی اپنے اندر ایک عام آدمی کی زندگی کا سانچا لیے ہوئے ہے۔ اس بات کو میسلو کی نظر سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
1۔ میسلو کے مطابق انسانی ضروریات کے مخروط کی سب سے نچلی تہہ میں" نفسیاتی ضروریات" آتی ہیں. انسان جب اپنی زندگی میں اپنی ضروریات کو ترتیب دیتا ہے تو سب سے زیادہ اہمیت نفسیاتی ضروریات کو دیتا ہے. میںسلو روٹی کپڑا اور مکان کو نفسیاتی ضروریات گردانتا ہے۔ اسلم کی کہانی میں ہم نے دیکھا کہ گھر کی دال روٹی کے لئےوہ پڑھائی بھی ترک کر دیتا ہے۔
2۔ میسلو ضروریات کا دوسرا درجہ "تحفظ کی ضروریات" کو قرار دیتا ہے. ہم نے اسلم کی کہانی میں دیکھا کہ جب اس کے روٹی کپڑے اور مکان کے مسائل حل ہو جاتے ہیں تو وہ معاشی طور پر خود کو مضبوط کرتا ہے۔
3۔ میسلو کے مطابق انسان کی تحفظ کی ضروریات کی تکمیل کے بعد "معاشرتی ضروریات" کو جگہ دیتا ہے. اس درجے میں پیار , محبت اور جذباتی معاملات سے متعلق ضروریات آتی ہیں۔ اسلم تحفظ کی ضروریات حاصل کرنے کے بعد شادی کرتا ہے ۔
4۔ جب انسان نفسیاتی ضروریات، تحفظ کی ضروریات اور معاشرتی ضروریات کی سطح سے بلند ہوتا ہے تو وہ اپنی ذات کا سفر شروع کرتا ہے۔ وہ اپنی عزت نفس اور معاشرے میں اپنے کردار کے بارے میں سوچنا شروع کرتا ہے۔میسلو اس درجے کو "مقام مرتبے کی ضروریات" کا نام دیتا ہے .
ہم دیکھتے ہیں کہ اسلم شادی کے بعد معاشرے میں فعال ہو جاتا ہے. وہ خود کو معتبر سمجھنا شروع کر دیتا ہے. وہ بہن بھائیوں کی شادی میں والدین کا ہاتھ بٹاتا ہے اور اپنے والد کے بعد خاندان کا سربراہ بنتا ہے ۔
5۔ جب انسان ان تمام ضروریات کی سطح سے اوپر اٹھ جاتا ہے۔۔ تو میسلو کے مطابق خود شناسی کی منزل تک پہنچ جاتا ہے وہ اپنے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کرتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جس کے بارے میں اقبال نے فرمایا تھا :
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
کہانی میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب اسلم تمام ضروریات سے آزاد ہو جاتا ہے تو اپنے بچپن کے شوق یعنی درس و تدریس کی طرف آتا ہے اور اپنی کم علمی کے باوجود اپنی لگن اور شوق سے خود کو ایک ماہر تعلیم کے طور پر منوا لیتا ہے۔ میسلو نے ان ضروریات کے درجات کو ایک مخلوط کی شکل میں ظاہر کیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ روٹی کپڑا اور مکان سے اوپر سوچتے ہی نہیں اور بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پا لیتے ہیں اور ان ضروریات کے گورکھ دھندے سے نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
اگر کوئی اس مقام تک پہنچ جاتا ہے تو خواہ وہ ایک میٹرک پاس دیہاتی محمد اسلم ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔ اس کی زندگی کی کہانی میں چاہے کوئی ڈرامائی موڑ کوئی تھرل، کوئی سسپینس بھی نہ ہو۔۔۔ میسلو کی تھیوری کے مطابق وہ ایک کامیاب انسان ہے۔