سیرت فاروقؓ کے چند خوب صورت گوشے، عبداللہ بن مسعودؓ کی زبانی
سیرت فاروقؓ کے چند خوب صورت گوشے، عبداللہ بن مسعودؓ کی زبانی
حضرت عمر فاروقؓ کے بارے میں عبداللہ بن مسعودؓ کیا فرماتے ہیں؟؟
عبدالله بن مسعود ؓ حضرت عمر بن خطاب ؓ کی سیرت کے کچھ گوشتے ہمارے سامنے یوں پیش کرتے ہیں :
جوں ہی عمر ؓ اسلام میں داخل ہو ئے ،ہم (اہلِ اسلام)قوی اور معزز ہو گئے۔ عمرؓ صاحبِ علم تھے ۔ اگرعربوں کے سب قبائل کا علم ایک پلڑے میں اور عمر ؓ کا علم دوسرے پلڑے میں رکھا جا ئے تو عمرؓ کا علم بھاری ہو گا ۔ ہم لوگوں کا خیال ہے کہ عمرؓ نے توفیقِ الٰہی سے علم کا ۱۰ میں سے ۹ فیصد حصہ پایا۔ جہاں تک میرا تعلق ہے،میں عمرؓ کی مجلس میں ایک نشست کو سال بھر علم حاصل کرنے سے زیادہ اہم اور مفید سمجھتا تھا ‘‘۔
حضرت ابنِ مسعود ؓ کا مندرجہ بالا قول بالکل درست ہے۔ حضرت عمر ؓ کی مجلس میں ایک گھڑی بیٹھنا اجر اور ثواب کے لحاظ سے بھی اور دینی و عملی دولت جمع کرنے کے لحاظ سے زیادہ مفید ہے ۔ ابنِ مسعود ؓ نے حضرت عمرؓ کے اسی مقام و مرتبہ کی وجہ سے یہ کہا تھا ورنہ حکمرانوں کے درباروں میں بیٹھناان کے نزدیک نہ باعثِ فخر تھا نہ موجبِ ثواب ۔
صحابہ کرامؓ کی شان ہر معاملےمیں بلند ہے۔ وہ اپنے ساتھیوں کی قدروقیمت خوب سمجھتے تھے،پھر اس کا اظہار محض زبان و قلم ہی سے نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے کرتے تھے ۔ ان کے دل کی دھڑکنیں،ان کی زبان کا پورا ساتھ دیتی تھیں ۔ نہ کوئی تکلیف اور نہ کوئی تصنع۔ وہ حقیقی محبت جوان کے دلوں میں موجزن تھی، آج نہ پید ہو چکی ہے۔ دنیا کی اصلاح کا ایک ہی راستہ ہےکہ وہی پر خلوص اور بے لاگ محبت پھر دلوں میں پیدا کی جائے۔آج اس محبت کی فقدان نے اعلٰی مقام شخصیتوں اور قیمتی انسانوں کی بے قدری کر دی ہے۔ حضرت عبدالله بن مسعودؓ اس مخلصانہ محبت کا نمونہ ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں:
’’یہ الحب فی الله کس قدر عظیم،مؤثر اور شریفانہ وصف ہے! حضرت عبدالله بن مسعودؓ بتاتے ہیں کہ شہیدالمحراب عمرؓ بن الخطاب کے حقیقی بھائی فوت ہوئے تو وہ اپنے بھائی کی جدائی میں رو پڑے ۔ لوگوں نے پوچھا :’’کیا آپ رو رہے ہیں؟‘‘فرمایا:’’ہاں!میں رو رہا ہوں۔ یہ نسب میں میرا بھائی تھا اور رسول اللهﷺ کی صحابیت میں میرا ساتھی تھا ۔ عمر بن خطاب ؓ کو چھوڑکر مجھے سب سے زیادہ محبوب تھا‘‘۔
عبدالله بن مسعودؓ محض اس وجہ سے نہیں رو رہے تھے کہ ان کا بھائی جدا ہو گیا تھا، بلکہ عقیدے اور صحابیت کا ساتھ بھی ان کے پیشِ نظر تھا ۔ بھائی کے ساتھ گہری محبت کے با وجود انہوں نے یہ بھی وضاحت کر دی کہ عمر بن خطاب ؓ سے انہیں اپنے اس حقیقی بھائی سے بھی زیادہ محبت تھی۔ انہیں علم تھا کہ عمر ؓ اسلام اور اہلِ اسلام کے لیےان کے بھائی سے زیادہ نفع مند خدمات کے حامل تھے ، اسی لیے انہوں نے عمر ؓ کو ترجیحی سلوک کا مستحق جانا ۔ یہی اسلام کا درس ہے کہ ہر مسلم دین کا حق پہنچانے اور اسے ادا کرنے کی فکر کرے۔