ہزار چاہا لگائیں کسی سے دل لیکن (ردیف .. ا)

ہزار چاہا لگائیں کسی سے دل لیکن
بچھڑ کے تجھ سے ترے شہر میں رہا نہ گیا


کبھی یہ سوچ کے روئے کہ مل سکے تسکیں
مگر جو رونے پہ آئے تو پھر ہنسا نہ گیا


کبھی تو بھول گئے پی کے نام تک ان کا
کبھی وہ یاد جو آئے تو پھر پیا نہ گیا


سنایا کرتے تھے دل کو حکایت دوراں
مگر جو دل نے کہا ہم سے وہ سنا نہ گیا


سمجھ میں آنے لگا جب فسانۂ ہستی
کسی سے حال دل زار پھر کہا نہ گیا