حیا گرتی ہوئی دیوار تھی کل شب جہاں میں تھا

حیا گرتی ہوئی دیوار تھی کل شب جہاں میں تھا
نظر اٹھنا بہت دشوار تھی کل شب جہاں میں تھا


جنہیں ساڑی میں آنا تھا وہ پتلونوں میں آئیں تھیں
تمیز مرد و زن دشوار تھی کل شب جہاں میں تھا


نظر کے کوفتے رخ کے پراٹھے وصل کے شربت
مکمل دعوت دیدار تھی کل شب جہاں میں تھا


زلیخائیں بضد تھیں ایک یوسف کے لیے یارو
بڑی ہی گرمئ بازار تھی کل شب جہاں میں تھا


پلس سیون کا چشمہ فٹ کئے تھے دیدہ ور سارے
نظر اپنی بھی نمبردار تھی کل شب جہاں میں تھا


تھرکنے ناچنے ٹھمکے لگانے کے تھے سب ماہر
ثقافت بر سر پیکار تھی کل شب جہاں میں تھا


کسی فرہاد کو حاجت نہ تھی تیشہ اٹھانے کی
ہر اک شیریں بیاں تلوار تھی کل شب جہاں میں تھا