ہوا اس سے کہنا
ہوا
صبح دم اس کی آہستہ آہستہ کھلتی ہوئی آنکھ سے
خواب کی سیپیاں چننے جائے تو کہنا
کہ ہم جاگتے ہیں
ہوا اس سے کہنا
کہ جو ہجر کی آگ پیتی رتوں کی طنابیں
رگوں سے الجھتی ہوئی سانس کے ساتھ کس دیں
انہیں رات کے سرمئی ہاتھ خیرات میں نیند کب دے سکے ہیں
ہوا اس کے بازو پہ لکھا ہوا کوئی تعویذ باندھے تو کہنا
کہ آوارگی اوڑھ کر سانس لیتے مسافر
تجھے کھوجتے کھوجتے تھک گئے ہیں
ہوا اس سے کہنا
کہ ہم نے تجھے کھوجنے کی سبھی خواہشوں کو
اداسی کی دیوار میں چن دیا ہے
ہوا اس سے کہنا
کہ وحشی درندوں کی بستی کو جاتے ہوئے راستوں پر
ترے نقش پا دیکھ کر
ہم نے دل میں ترے نام کے ہر طرف
اک سیہ ماتمی حاشیہ بن دیا ہے
ہوا اس سے کہنا
ہوا کچھ نہ کہنا
ہوا کچھ نہ کہنا