ہوا کی زد پہ تو کوئی چراغ رہنے دے

ہوا کی زد پہ تو کوئی چراغ رہنے دے
یہ حوصلوں کی لڑائی ہے اس کو چلنے دے


نہ جانے کون بھٹکتا ہوا چلا آئے
کواڑ بند کیا ہے دیا تو جلنے دے


ابھی تو اور اٹھیں گے نقاب چہروں سے
یہ اقتدار کا سورج تو اور ڈھلنے دے


یہ کوئلہ سے بنا دیں گے تجھ کو اک ہیرا
یہ اندروں میں ہے جو آگ اس کو جلنے دے


کوئی تو ہے جو یہ اسرار کائنات میں ہیں
یہ سب کھلیں گے ذرا اور دن نکلنے دے


ندیمؔ آئیں گے وہ بندھ کے کچے دھاگے سے
اس آرزو کو ذرا اور دل میں پلنے دے