ہوا جام صحت تجویز کرتی ہے

مجھے معلوم تھا
یہ دن بھی دکھ کی کوکھ سے پھوٹا ہے
میری ماتمی چادر
نہیں تبدیل ہوگی آج کے دن بھی
جو راکھ اڑتی تھی خوابوں کی بدن میں
یوں ہی آشفتہ رہے گی
اور اداسی کی یہی صورت رہے گی
میں اپنے سوگ میں ماتم کناں
یوں سر بہ زانو رات تک بیٹھی رہوں گی
اور مرے خوابوں کا پرسہ آج بھی کوئی نہیں دے گا
مگر یہ کون ہے
جو یوں مجھے باہر بلاتا ہے
بڑی نرمی سے کہتا ہے
کہ اپنے حجرہ غم سے نکل کر باغ میں آؤ
ذرا باہر تو دیکھو
دور تک سبزہ بچھا ہے
اور ہری شاخوں پہ نارنجی شگوفے مسکراتے ہیں
ملائم سبز پتوں پر پڑی شبنم
سنہری دھوپ میں ہیرے کی صورت جگمگاتی ہے
درختوں میں چھپی ندی
بہت دھیمے سروں میں گنگناتی ہے
چمکتے زرد پھولوں سے لدی ننھی پہاڑی کے عقب میں
نقرئی چشمہ خوشی سے کھلکھلاتا ہے
پرند خوش گلو
شاخ شگفتہ پر چہکتا ہے
گھنے جنگل میں بارش کا غبار سبز
سطح شیشۂ دل پر
ملائم انگلیوں سے مرحبا کے لفظ لکھتا ہے
کوئی آتا ہے
آ کر چادر غم کو بڑی آہستگی سے
میرے شانوں سے ہٹا کر
سات رنگوں کا دوپٹہ کھول کر مجھ کو اڑاتا ہے
میں کھل کر سانس لیتی ہوں
مرے اندر
کوئی پیروں میں گھنگھرو باندھتا ہے
رقص کا آغاز کرتا ہے
مرے کانوں کے آویزوں کو یہ کس نے چھوا
جس سے لویں پھر سے گلابی ہو گئی ہیں
کوئی سرگوشیوں میں پھر سے میرا نام لیتا ہے
فضا کی نغمگی آواز دیتی ہے
ہوا جام صحت تجویز کرتی ہے