ہوا ہی لو کو گھٹاتی وہی بڑھاتی ہے

ہوا ہی لو کو گھٹاتی وہی بڑھاتی ہے
یہ کس گمان میں دنیا دیے جلاتی ہے


بھٹکنے والوں کو کیا فرق اس سے پڑتا ہے
سفر میں کون سڑک کس طرف کو جاتی ہے


عجیب خوف کا گنبد ہے میرے چار طرف
مری صدا مرے کانوں میں لوٹ آتی ہے


وہ جس بھی راہ سے گزرے جہاں قیام کرے
زمیں وہاں کی ستاروں سے بھرتی جاتی ہے


یہ زندگی بھی کہیں ہو نہ شہر زاد کا روپ
شبانہ روز کہانی نئی سناتی ہے